فَمَنْ حَآجَّكَ فِيْهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَاَبْنَآءَكُمْ وَنِسَآءَنَا وَنِسَآءَكُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَكُمْۖ ثُـمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّـٰهِ عَلَى الْكَاذِبِيْنَ
ترجمہ
پس اگر وہ آپ سے جھگڑ یں
اس بارے میں بعد اسکے کہ تیرے پاس علم آچکا ہے تو ان سے کہہ دیجئے آؤ ہم اپنے بیٹے بلائیں اور تم اپنے بیٹے بلاؤ
ہم اپنی عورتیں بلائیں اور تم اپنی عورتیں
بلاؤ اور ہم اپنے نفس بلائیں اور
تم اپنے نفس بلاؤ پس ایک دوسرے پر
بدوعاکریں اور اللہ کی لعنت جھوٹوں پر مقررکریں
با تفاق مفسرین اہل اسلام حضرت
رسالتمآب نے مقام عمل میں بیٹوں کی جگہ
امام حسؑن اور امام حسیؑن کو ساتھ لیا
نساء کیجگہ جناب خاتون جنت حضرت فاطمؑہ
زہرا کو ہمراہ لیا اور نفس کی جگہ حضرت علیؑ کو ہمراہ لے گئے پس اس آیت مجیدہ میں ابناء نساء اور انفس کے مصداق
یہی تھے پوری آیت پر تفصیلی تبصرہ ہم نے تفسیر کی تیسری جلد میں
کیاہے یہاں صرف لفظ انفس ہمارا مقام
استدلال ہے گویا الفاظ آیت بتلاتے ہیں کہ حضوؐر
نے مردوں میں سے اس تحریک میں ان کو شریک کرنا تھا جو حضوؐر کے ساتھ اس قسم کی یگانگت رکھتے ہوں جس طرح کہ جسم اور نفس کی آپس میں
ہوتی ہے پس وہی مرد جانے کے اہل ہو سکتے تھے
جو حضوؐر کےلئے بمنزلہ نفس ہوں اور یہ خیال رہے کہ صیغہ جمع کے اندر کم
ازکم تین کی گنجائش تھی لیکن صرف حضرت علیؑ کو ہمراہ لے جانا اس امر پردلالت
کرتاہے کہ انفس کا مصداق سوائے علیؑ کے اور کوئی
نہیں تھا پس آیت مجیدہ کی رو سے علیؑ نفس رسول ثابت ہوئے پس ان تمام انبیاء سابقین سے افضل ہونا ثابت ہوگیا اور رسول کا خلیفہ وہی
ہوسکتاہے جو رسولؐ کی طرح ان تمام لوگوں پر حکومت کرنے کااہل ہوجو رسولؑ کی
رعایا تھے اور چونکہ تمام انبیاء رسول پاکؐ کی رعایا کی حیثیت رکھتے ہیں اور علیؑ نفس رسولؐ ہونے کی حیثیت سے ان سے افضل ہے پس علیؑ کا خلیفہ رسول ہونا ثابتہوا نیز آیت کے لفظوں میں علیؑ کونفس رسول کہنا علیؑ کے
جامع کمالات نبویہ ہونے کی دلیل ہے اگر چہ
نبوت کا عہدہ ختم ہے لیکن جامع کمالات ہونے کی حیثیت سے خلیفہ بلا فصل آیت کی رو
سے انہی کو ہونا چایئے کیونکہ کامل کی
موجود گی میں ناقص کو حاکم ماننابعید ازعقل ہے اور نفس رسول سے کسی کاکامل تر ہونا ناممکن ہے
نیز یہ آیت
سچے اور جھوٹے کے درمیان امتیاز قائم
کررہی ہے کہ مباہلہ میں جانے والے رسول
کےساتھی ایسے سچے ہیں کہ ان کی
سچائی میں کوئی شک تک نہیں کیونکہ وہاں
جھوٹوں پر لعنت کرنی تھی تو جب خدا
ان کے سچے ہونے کی شہادت دیتاہے پھر کسی مسلمان کو انکی صداقت میں شک کرنے کا کیا
حق ہے حالانکہ امامت وسیاست میں ابن
قتیبہ دینوری نے صاف لکھاہے
کہ حضرت علیؑ نے خود جاکر
ابوبکر کو اپنا حق جتلایا تھا جس کو
جھٹلایا گیا یا ناقابل عمل سمجھاگیا گویا
آیت مجیدہ میں انکی خلافت بلا فصل کی دلیل
دوپہلوؤں سے ہے ایک نفس رسول ہونے
کی حیثیت سے دوسرے صادق ہونے کی حیثیت ہے