التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

حصہ دوم - چھٹا باب - ماجاءبہ محمد ﷺ - سیدالانبیا حضرت محمد مصطفی کی نبوت کاملہ

3 min read

ہمارا یہ عقیدہ ہے  کہ جناب رسالت مآب کی نبوت و رسالت بلکہ ان کی جملہ انبیا مرسلین پرسیادت و افضلیت بلکہ تمام کائنات خدا وندی پر شرف و فضیلیت کے اقرار کے بعد اس بات کا اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ انہوں نے خداوندعلام کی جانب سے جو کچھ ہم تک پہنچایا وہ حق ہے ان کے کسی حکم پر اعتراض ان کی نبوت کے انکار کرنے کے مترادف ہے جس چیز کو آپ نے حلال کیا وہ قیامت تک حلال رہے گی اور جس کو انہوں نے حرام کیا وہ تا قیامت حرام رہے گی ان کی شریعت گذشتہ انبیا کی شریعتوں کی ناسخ ہے لیکن اسلام چونکہ ایک مکمل دستور انسانیت ہے لہذا اس کو کبھی نسخ لاحق  نہ ہو گی اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا اگر کوئی دعوی کرے گا تو وہ جھوٹا ہو گا انہوں نے جس حکم کی جو حد بیان فرمائی وہی درست ہے جس کو واجب کیاوہ واجب جس کو مستجب و سنت فرمایا وہ مستجب و سنت جس کو حرام مکروہ یا مباح کہا وہ حرام مکروہ یا مباح ہی رہے گا کسی زمانہ میں ان کے فرمان کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا لہذا یہ کہنا کہ زمانہ کے تقاضوں سےاسلامی احکام میں تغیر آ سکتا ہے محض دین دشمن عناصر اور مغربی فریب خوردہ اذہان کی مذہب سے آزادی کا ہی شاخسانہ ہے حضور ایک مکمل اور ناقابل ترمیم و تنسیخ شریعت کے مالک ہیں جس کی بقا ءانسانیت کی بقاءکے ساتھ وابستہ ہے

ہم چونکہ تمام انبیا کی عصمت کے قائل ہیں اور حضور تمام انبیا کے سید و سردار میں تو ان کی عصمت بدرجہ اولی ان سے اتم و اکمل تھی لہذا قرآن مجید کی جن آیات سے ا ن کے خلاف وہم پڑتا ہے وہ سب قابل تاویل ہیں چنانچہ سور ہ فتح میں جہاں آپ کی طرف ذنب کی نسبت ہے وہاں یا تو ذنب سے مراد امت کے گناہ ہیں اور یا یہ مراد ہے کہ ہم نے تجھے فتح عطا فرمائی تاکہ آپ کی سابق و لاحق تمام کمزوریوں ختم ہو ں اور اقتدار ظاہری آپ کے قدمو ں میں ہو شیعہ و سنی علما نے آیت مجیدہ کی تاویل اپنے اپنے انداز فکر سے کی ہے لیکن سب سے بہتر یہ ہے کہ کہا جائے مشرکین مکہ کی نگاہوں میں جو چیزیں آپ کی گناہ کی حیثیت رکھتی تھیں اب فتح کے بعد وہ نظر ئیے ختم ہو جائیں گے اور ان کی نگاہوں میں آپ کی سابقہ و لاحقہ غلطیاں نیکیوں کا رنگ اختیارکر لیں گی چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہی لوگ جو آپ کے جانی و مالی دشمن تھے آپ کے ممنون احسان ہوئے اور ان کی نظروں میں جو پہلے حضور سے وارد ہونے والے عقائد و افعال گناہ تھے وہ اب حسنات سے بدل گئے اس کی تفصیل تفسیر انوارالنجف کی جلد نمبر 13 میں ملاحظہ ہو خلاصہ یہ کہ حضور ﷺ کی ذات جامعہ جمیع کمالات انسانیہ تھی صغیرہ یا کبیرہ گناہ ان سے کبھی صادر نہیں ہو انہ قبل از بعثت نہ بعد از بعثت نیزشق صدر ہمارا عقیدہ نہیں ہے بلکہ جو لوگ انبیا کی عظمت کے قائل نہیں اور ان کو اپنے جیساانسان سمجھتے ہیں وہ اسی  قسم کی بے تکی باتیں کرتے ہیں ہم چھوٹے سے چھوٹے نبی کے متعلق بھی شق صدر کے قائل نہیں چہ جائیکہ خاتم الانبیا سیدالمرسلین کے متعلق ہم اس قسم کے بے ہود ہ خیالات ذہن میں لائیں اور جو کچھ ضروری طور پر حضور کے دین میں سے ثابت ہو ہم اس کے منکر کو کافر سمجھتے ہیں یہ ہے اجمالی عقیدہ پس جملہ عبادات نماز روزہ وغیرہ اورجملہ معاملات بیع ورہن وغیرہ اور جملہ عقود نکا ح طلاق وغیرہ اورجملہ تعزیرات جو حضور ﷺ نے ہم تک پہنچادیں ان میں سے کسی کا انکار اسلام سے خارج کر دیتا ہے پس اسلام کے جملہ احکام خوا ہ ان کا تعلق اصلاح نفس سے ہو یا اصلاح معاشرہ سے ہو ان کا تسلیم کرنا واجب و لازم ہے ان میں سے کسی کا انکار یاروموجب کفر ہے ور تسلیم کے بعد مقام عمل میں خلاف ورزی موجب فسق ہے جس سے توبہ کرنا واجب ہوتاہے

ایک تبصرہ شائع کریں