نور اور برہان
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ
رَّبِّكُمْ وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا(۱۷۴)
فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ اعْتَصَمُوْا بِهٖ
فَسَیُدْخِلُهُمْ فِیْ رَحْمَةٍ مِّنْهُ وَ فَضْلٍۙ-وَّ یَهْدِیْهِمْ اِلَیْهِ صِرَاطًا
مُّسْتَقِیْمًاؕ(۱۷۵)
اے لوگو! تحقیق آ چکی تمہارے پاس برہان اپنے رب سے اور نازل کیا
ہم نے تمہاری طرف نور مبین (174) پس جو لوگ ایمان لائے اللہ پر اور تمسک پکڑا اس
سے تو عنقریب داخل کرے گا اپنی رحمت اور فضل میں اور ان کو توفیق ہدایت دے گا اپنی
طرف راہ مستقیم کی (175)
آیت مجیدہ میں برہان سے مراد جناب رسالتمآبؐ ہیں کہ ان کے معجزات قاہرہ اور علامات باہرہ دین اسلام کی حقانیت کے لئے برہان کی حیثیت سے تھے اور بعض لوگوں نے برہان سے مراد قرآن مجید لیا ہے اور نُوْرًا مُّبِیْنًا کے کے مصداق میں بھی اختلاف ہے بعضے کہتے ہیں کہ اس سے مراد قرآن مجید ہے تو ان کے نزدیک برہان سے مراد پھر حضور رسالتمآبؐ ہی ہونگے اور اگر برہان سے مراد قرآن ہوتو نور مبین سے پراد پھر رسالتمآبؐ کو ماننا پڑے گا اور اکثر مفسرین اسی پر ہیں کہ برہان سے جناب جناب رسالتمآبؐ اور نور مبین سے قرآن مراد ہیں تفسیر مجمع البیان میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ برہان سے مراد حضرت محمد اور نور سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہے اور صراط مستقیم سے بھی علی علیہ السلام ہی مراد ہے اور تفسیر قمی سے منقول ہے کہ نور سے مراد امام حضرت امیر علیہ السلام ہے اور اَلذِیْنَ اٰمَنُوْا الخ اس آیت مجیدہ کے مصداق وہ لوگ ہیں جو حضرت علی علیہ السلام اور باقی آئمہ معصومین کی امامت سے تمسک رکھتے ہںاور اگر عامہ مفسرین کی تفسیر کو لیا جائے کہ برہان سے مراد جناب رسول خدا اور نور سے مراد قرآن چونکہ خطاب تمام لوگوں کےلئے ہے اور قرآن و اسلام قیامت تک کے لئے ہیں تو آیت مجیدہ کا خطاب قیامت تک کی آنے والی نسلوں سے بالعموم ہو گا پس جس طرح نور مبین سے مراد قرآن ہے اور وہ قیامت تک زندہ ہے تو برہان سے مراد بھی وہ شخصیت ہو گی جو قیمات قرآن کے ساتھ ہوتا کہ تا قیامت تمام لوگوں کے لئے خطاب درست ہو اور اس مطلب کو حدیث ثقلین جو متواتر بین الفریقین ہے۔ واضح کر رہی ہے اور مقصد یہ ہو گا کہ برہان سے مراد ہادی ہے جو ہر دور میں قرآن کے مطالب سمجھتا ہے اور لوگوں تک پہنچاتا ہو۔ پس دور نبوی میں برہان کا مصداق خود رسالتمابؐ تھے اور ان کے بعد ان کی عترت طاہرہ جسے خود صاف طور پر فرما گئے اِنِّیْ تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقَلَیْن کِتَابُ اللہِ وعترتی (الحدیث) اور اگر برہان سے مراد قرآن اور نور سے مراد رسول ہو تو نور کے سلسلہ کو قیامت تک لانا پڑے گا اور ماننا پڑے گا کہ ہر زمانہ میں اس نور کا ایک فرد موجود ہوا کرتا ہے تاکہ قیامت تک کے لوگوں کو ان دونوں سے تمسک کا حکم دیا جا سکے اور دور حاضر میں اس کا نور مصداق حضرت ولی عصر امام زماں ہے جو پردہ غیب میں ہے عج اللہ فرجہٗ ۔
یَسْتَفْتُوْنَكَؕ-قُلِ اللّٰهُ یُفْتِیْكُمْ فِی
الْكَلٰلَةِؕ-اِنِ امْرُؤٌا هَلَكَ لَیْسَ لَهٗ وَلَدٌ وَّ لَهٗۤ اُخْتٌ فَلَهَا
نِصْفُ مَا تَرَكَۚ-وَ هُوَ یَرِثُهَاۤ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهَا وَلَدٌؕ-فَاِنْ
كَانَتَا اثْنَتَیْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَكَؕ-وَ اِنْ كَانُوْۤا
اِخْوَةً رِّجَالًا وَّ نِسَآءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ
الْاُنْثَیَیْنِؕ-یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اَنْ تَضِلُّوْاؕ-وَ اللّٰهُ بِكُلِّ
شَیْءٍ عَلِیْمٌ۠(۱۷۶)
فتوٰی طلب کرتے ہیں آپ سے فرما دیجئے اللہ تمہیں فتوٰی دیتا ہے
کلالہ کے متعلق اگر کوئی شخص مر جائے کہ اس کی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو
تو اس کےلئے نصف ہے ترکہ کا اور یہ اس بہن کی وارث ہو گا اگر اس کی اولاد نہ ہوگی
پس اگر ہوں دو نہنیں ان کےلئے دو تہائی ترکہ ہو گا اور اگرہوں بھائی مرد اور تین
عورتیں تو مرد کو مثل حصے دوعورتوں کے خدا بیان کرتا ہے تمہارے لئے کہ گمراہ نہ ہو
اور اللہ ہر شے کو جاننے والا ہے (176)
کلالہ کا معنی گذر چکا ہے اس مقام پر کلالہ سے مراد مادری و
پدری بہنیں ہیں اور انہیں کی وراثت کا بیان ہو رہا ہے اور پہلی جگہ کلالہ سے مراد
قرآن مجید میں صرف مادری برادری تھی اور ان کے حقوق کا ذکر تھا میت کی صرف ایک
مادری پدری بہن ہو تو جاندار کا 1/2 حصہ دیا جائے گابالفرض اور اگر اس طبقہ میں
دوسرا کوئی وارث نہ ہوا تو باقی رد بحق قرابت ان کو ملے گا اور بھائی بہنیں سب ہوں
تو مرد کا حصہ عورت سے دوگنا ہوگا۔
بھائی بہنوں کے وارثت کے حقوق اور حسب ضرورت اس بارہ میں تفصیلی
مسائل اسی جلد میں پہلے بیان ہو چکے ہیں۔
آج بحمد اللہ بروز سوموار
پونے پانچ بجے شام 9 رجب 81ھ مطابق 18 دسمبر 1961ء سورہ نساء کی تفسیر سے فارغ ہوا
ہوں ۔ اے پروردگار ! بحق محمد وآلہٖ الاطہار مجھے اپنی پاک کتاب کی تفسیر پر موفق
فرما اور اس سلسلسہ میں حائل شدہ جانی ومالی تمام مشکلات کو دور فرما وما توفیقی
اِلَّا باللہِ العلی العظیم و الحمد لِلہِ رب العٰلمین والصَّلوۃ علی مٗحَمَّدٍ وَ
اٰلہ الطاھرین ۔
(اس کے بعد پانچویں جلد
انشاء اللہ سورہ مائدہ سے شروع ہو گی )