ہر ذی ہوش اچھی طرح جانتا ہے کہ خداوند قدوس نے عالمی وجود کو اسباب و علل کا مرہون منت بنایا ہے اور اس کی تمام ترحرکات و سکنات لمحہ بہ لمحہ اور لحظہ بہ لحظہ سبب و علت یامسب ومعلول کی حیثیت سے معرض ظہور میں نمودار ہوتی ہیں کوئی شئی اگر کسی کی سبب ہےتوکسی کی مسبب بھی ضرور ہے اسی طرح اگر کوئی شئی کسی کی علت ہے توکسی اورکی معلول بھی ضرور ہے اگر ایک شئی کسی کا مبدا ءہےتوکوئی دوسری شئی اس کا مبدا ءبھی ماننی پڑتی ہے یہاں تک کہ انتہا ایک ایسی علت سبب ااور مبدا تک ہوتی ہے جو تمام کا مبدا ءالمادی ہے اور اس کی مبدا کوئی نہیں اور وہ اللہ واحد ہے اور وہی واجب الوجود ہے اور وہی تمام صفات کمال کاجامع ہے چونکہ یہ بات مسلم ہے کہ ہر معلول اپنی علت سےاسکا مناسب اثرات لے کر جنم لیتا ہے اور ہر مسبب اپنے سبب سے اس کے مزاج کے مطابق خواص کا حامل ہوتاہے لہذا انسان تکوینی طور پر چونکہ ایسے مبادی کا مرہون منت ہےجوصفات و اخلاط متضادہ کے حامل ہیں لہذا انسان کے اندر اس تضاد کا ظہور ضروری ہے پس جسم انسانی میں اس تضاد کو کنٹرول کرنے کے لیے خداوند کریم نےاس کے اندر ایک ایسی قوت رکھتی ہے جو اس کے توازن کو قائم رکھے خواہ اسے طبیعت سے تعبیر کیا جائے یا اس کانام حرارت غریزیہ رکھاجائے اور کسی غذا کی نامناسبت یا آب وہو ا کی ناموزو نیت جب متضاد اخلاط میں سے کسی کو کمزور کر دے یا کسی کو طاقت وربنا دےتوفورا جنگ چھڑ جاتی ہے بعض اوقات خود طبیعت یاحرارت غریزیہ اندر ہی اند ر اس کی مناسب اصلاح کر کے معاملہ کورفع رفع کر دیتی ہے اور بعض اوقات جب فساد کے بڑھنے کااندیشہ ہوتاہے تو بیرونی امداد کی ضرورت لاحق ہوتی ہے پس مناسب دوا یا علاج سے مزاج میں توازن پیدا کر کے انسانی وجود کو محفوظ کر لیا جاتاہے لیکن جب اخلاط کا بگاڑ حد سے بڑھ جائے توا یسی صورت میں نہ طبیعت کا چارہ لگتاہے اورنہ بیرونی امداد فائدہ د ے سکتی ہے پس نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان موت کی آغوش میں جاکر آرام کرتا ہے جب ایک انسان کی انفرادی طورپر یہ حالت ہےتو تمام انسانی افراد بھی تو انہی مواد متضاد ہ ہی کی پیداوار ہیں اور بمطابق مضمون روایت اس کی تخلیق کے لئے فرشتے نے نرم سخت سیاہ و سفید ہر قسم کی مٹی کو جمع کیا تھا اورآگ پانی اور ہوا کی آمیزش نے اس میں متضاد کیفیات پید اکردیں پس اس کی کثرت مجموعی طور پر ان ہی اثرات کی حامل ہے جو اس کے افراد کی فطرت میں شامل تھے جب انفرادی طورپر ایک انسان کے وجود میں بعض اسباب و ذرائع کی وجہ سے اخلاط و امزجہ کی ٹکر ہوتی ہے تو ناممکن ہے کہ مجموعی طورپر سب انسانوں میں صفات متضادہ ہو ں بھی اور ٹکڑار بھی نہ ہو پس اس ٹکراو کی روک تھام کے لئے اللہ نے دین بھیجا جس کی تبلیغ کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی بھیجے تاکہ انسانوں کومتوازن زندگی کی دعوت دے کر ان کوباہمی تصادم سے بچائیں اوران کی ہلاکت کے گڑھے میں گرنے کے بچائے دائمی فلاح و نجات کاراستہ دکھائیں یاد رکھیئے انسان کی چھوٹی سی کائنات میں تکوین و تشریع کے نظام رائج ہیں اس کے ظاہری و باطنی اعضا و اجزا کی خلقت ان کی خاصیات و کیفیات اور ان کی فطری اثرات و نتائج دل و دماغ اور ان کے قوائے محرکہ و متحرکہ حواس خمسہ باطنہ و ظاہرہ اور ان کے مخصوص فطری اعمال و آثار وغیرہ یہ سب تکوین ہے اور اس میں انسان بے بس و مجبور محض ہے اور یہ سب چیزیں اپنے مبادی سے معرض ظہور میں آئیں جن کی انتہا مبدا فیض ذات واجب الوجود ہے اس کے بعد انسان کا خیرو شر کیطرف قدم بڑھانا اچھائی اور برائی کو اختیار کرنا اور شرافت یارذالت کی طرف جھکنا وغیرہ تمام صفات اختیار یہ ہیں جو نظام تشریعی کی محتاج ہیں تکوین کے لحاظ سے جسم انسانی میں بڑے بڑے کارخانے موجو د ہیں اور قوائے باطنہ میں سے ہر ایک اپنے اپنے متعلقہ کارخانہ کاکام سنبھا لے ہوئے ہے مثلا قوت شامہ ناک کے ذریعے خوشبو یا بد بو کی رپورٹ جس مشترک تک پہنچاتی ہے قوت باصرہ رنگوں اور شکلوں کا فوٹو پیش کر تی ہے قوت سامعہ آوازوں کی کیفیات نقل کرتی ہے قوت ذائقہ چکھنے کے قابل اشیا ءکی اچھائی یابرائی معلوم کرنے کا راستہ ہے او قوت لامسہ سردی و گرمی اور سختی و نرمی کی تحقیق پر مامور ہے یہ تو ظاہری قوتوں کے کرشمے ہیں ذرا اندر جھانک کر دیکھئے قوت غاویہ غذا کی بہم رسانی کا کام کرتی ہے قوت نامیہ جسم میں ارتقائی جذبہ بڑھاتی ہےقوت ماسکہ غذا کو محفوظا کرنے پر مامور ہے قوت ہاضمہ غذا کو ہضم کر کے اسے جزو بدن بنانے کی کفیل ہےقوت جاذبہ اپنے مناسب اجزا کو جذب کر کے جزو بدن بناتی ہے او ر قوت دافعہ فضلات اور غیر ضروری حصہ غذا کو انتڑیو ں کے ذریعے نکال پھینکے کی ضامن ہے وعلی ہذا القیاس اور ان قوتوں میں سے جس کا کام معطل یا مخدوش ہو جائے وہ سب کا رخانہ جسم کو معطل یا مخدوش بنا دیتا ہے یہ ہے بدن کانظا م تکوین جو اضطرار پرمبنی ہے کہ ہر قوت مجبور ا اپنے عہدہ سے سبکدوش ہونے پر مامور ہے
اسباب و علل کی کارستانیاں
4 min read