عصر حاضر کے ایک مفکر پروفیسر کی تحقیق اس مقام پر پیش کرنا کافی سمجھتا ہوں جس سے اتفاقا پیدائش مخلوق کےقائلین کاناطقہ بند ہو جائیگا نیز بے حس مادہ اور لاشعور طبیعت کو خالق ماننے والوں کو بھی سوچنے اورصحیح فیصلہ کرنے کااچھا خاصا موقع مل سکے گا عنصرجدید سائنس کا دور ہے اگرچہ آفتاب سائنس ابھی طلوع ہوا ہے تاہم ہر نئی دریافت یہ تصدیق کرتی ہے کہ یہ دنیا کا تخلیقی کارنامہ ایک حکیم مطلق یعنی خالق پروردگار کاہی مرہون منت ہے ڈارون کے بعد ایک صدی میں انسان نے عظیم انسان الشان ایجادات کی ہیں اور ہم ایک ایسے سرچشمہ علم سے بہرہ ور ہوتے ہیں کہ جہاںسائنس اپنے عجز کےاقرار کےساتھ خدا پر ایمان کو مستحکم کرتی ہے او ر ہم خدا کی حقیقت کے قریب سے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں مشاہدہ قدرت اور جدید سائنسی علوم ریاضی طبیعات جغرافیہ فلسفہ اور علم حیوانات وغیرہ سے چند دلائل نے میرے خدا پر ایمان کو تازہ کر دیا ہے شاید آپ بھی ان سے اتفاق کریں
حساب کے لافانی قانون کی رو سے ہم
ثابت کرتے ہیں کہ ہماری یہ کائنات ایک عظیم انجینئر کے ہاتھوں سے ہی پایہ تکمیل کو
پہنچ سکتی تھی فرض کیجئے آ پ دس سکے لے کر ان پر ترتیب وار ایک سے دس تک ہندسے
لکھ دیتے ہیں اور انہیں ملانے کے بعد جیب میں ڈال لیتے ہیں اب آپ انہیں اس ترتیب
سے نکالنے کی کوشش کریں کہ پہلے نمبر ایک آئے پھر نمبر دو پھر علی الترتیب نمبر
دس نکلے اور ہر سکے نکالنے کے بعد اسے جیب میں ڈال کر ملاتے رہیں حساب کی روسے ہم
جانتے ہیں کہ ان دس سکوں میں سے نمبر 2 کو ترتیب سے نکالنے کی کوشش کریں تو اس کا امکان 10/1 ہے اگر نمبر ایک اور نمبر 2
کو ترتیب سے نکالنے کے لئے ہزار میں سے ایک دفعہ کاامکان ہے لیکن ایک سے دس تک
تمام سکوں کو ترتیب سے نکالنے کے لئے امکان کس حد تک ہے شاید ایک ارب دفعہ میں ایک
مرتبہ تواس تو جہیہ سے ہم اس نتیجہ تک پہنچتے ہیں کہ ہماری زمین پر زندگی برقرار
رکھنے کے لئے کڑی شرائط کا ہونا ضرور ی ہے البتہ ان میں توازن و تناسب ناگزیر ہے
زمین اپنے محور پر ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چکر لگاتی ہے اگر یہ سو میل
کی رفتار پر آجائے تو ہمارے دن رات موجودہ وقت سے دس گنا بڑھ جائیں گے اور سور ج کی
تمازت دنیا کے سبزے کی پتی پتی کو جلا کر رکھ دے گی اور اگر کوئی سخت جان کو نپل
بچ بھی گئی تویخ بستہ طویل زات اسے ختم کر دے گی سور ج جو ہماری زندگی کے لئے ایک
لازمہ کی حیثیت رکھتا ہے اس کی اوپر کی سطح کا درجہ حرارت 12 ہزار فارن ہیٹ ہے
ہماری زمین اس سے اتنی دور ہے کہ یہ ازلی ابدی آگ کی بھٹی ہمیں مناسب گرمی دیتی
ہے اگر یہ اس سے آدھی حرارت دے توہم برفاب ہو جائیں گے اور اگر یہ اس سے آدھی
حرارت تیز کر دے تو ہم کباب ہو جائیں گے ہماری زمین 23 درجہ عمود جھکی ہوئی ہے اسی
سے ہمارے موسم بنتے ہیں اگر یوں یہ ہوتا تو سمندرون سے اٹھنے والے بخارات شمالا
جنوبا ہر سمت میں برف کے براعظم بنا دیتے اگر چاند موجودہ فاصلہ سے صرف پچاس ہزار
میل دور ہوتا تو سمندروں میں اس قدر شدید مدو جزر پیدا ہوتا کہ دو روز میں سارے
براعظم طوفان نوح کی داستان دہراتے حتی کہ ہمالیہ کی چوٹیاں بھی غرقاب ہوجائیں اگر
سطح زمین کا چھلکا صرف دس فٹ اور موٹا ہوتا تو یہاں آکسیجن نہ مل سکتی جس کے بغیر
زندگی موت بن جاتی اگر سمندر موجودہ گہرائیوں سے زیادہ عمیق ہوتا تو کاربن ڈائی
آکسائیڈ اور آکسیجن اتنے زیادہ صرف ہو جاتے کہ نباتا ت کا قلع قمع ہو جاتا اور
اگر زمین کے گرد فضا کا ہالہ اتنا کثیف نہ ہوتا توکا ئنات میں روزانہ لاکھوں کی
تعداد میں ٹوٹنے والے شہاب ثاقب زمین کو چاروں طرف سے آگ لگا دیتے اسی طرح اور
بیسیوں مثالوں سے واضح ہوتاہے کہ کروڑ میں سے ایک مرتبہ بھی امکان نہیں ہے کہ
ہماری زمین پر زندگی کی نمود محض اتفاق ہے بلکہ اسے ایک سوچی سمجھی سکیم کے مطابق
تیار کیا گیا ہے اور یہ سکیم کسی حکیم و دانا و عقل کل کے وجود پر دلالت کرتی ہے
یعنی وجود خالق انتہی
خلاصہ بحث سابق
اس ساری
دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ فطرت انسانیہ نے جب غور و فکر کو اسباب و علل کی معرفت کی
طرف بڑھا تو وہ نظرئیے سامنے آئے پہلا یہ کہ سب حوادث و عجائب و غرائب مادہ سے
خود بخود شہود پر آ گئے اور ان کی کوئی علت فاعلہ نہیں گویا یہ کائنات خود قدیم
ہے اور ایسی ہی چلتی رہےگی اوریہ سب حسن اتفاق کی پیداوار ہے اور دوسرا یہ کہ اس
سب عالم کون کا مبدا ءالمبادی ا یک ذات ہے جو دانا و بنیا اورجامع جمیع صفات کمال
ہے جس نے اپنے حسن تدبیر اور کمال حکمت سے اس تمام نظام کو باختیار خود پیدا کیا
اور لازوال مصالح و حکم ان میں تفویض فرما کر اس کو ایک بہترین دستور و نظام کے
ماتحت قائم فرمایا اور وہی خالق کل ہے جسے اللہ کہتے ہیں پس کائنات کی حکم و مصالح
میں غور و خوض اور کتاب نفس کا گہرا مطالعہ پہلے نظر ئیے کو باطل اورآخری نظریہ
پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے اور خدا کی قسم علمائے اعلام اور صاحبان افہام پر اس سے
بڑھ کر اور کیا مصیبت ہو گی کہ زمانہ کی کج روی نےان کوا یسے ظالم لوگو ں سے نپٹنے
پر مجبور کر دیا جو واضح البدیہیات کے وجود اک انکار کر یں پس میں اس جھگڑے کا
فیصلہ عقل و وجدان کی عدالت میں پیش کرتا ہوں اور اسی کا فیصلہ ہی انصاف شعار اور
حقیقت طلب طبائع کےلئے آخری فیصلہ ہے بہرکیف وجود باری کا یقین اس قدر بد یہی ہے
کہ اس کو بچے بوڑھے زن و مرد اور عالم و جاہل اپنے اپنے انداز سے واضح طور پر
جانتے ہیں حتاکہ ایک بددی عرب اونٹوں کے چر د اپنے سے سوال کیا گیا کہ وجود باری
کا کیا ثبوت ہے تو بلا قاتل کہنے لگا جب میگنی کا وجود باری کی دلیل ہے نشان قدم
کسی گذرنے والے کا پتہ دیتا ہےتو کیا اتنا بڑا چراغ نیل گوں اور اتنی لمبی چوڑی
زمین اپنے خالق کے وجود کا پتہ نہیں دیتی اور جب ایک بوڑھیا سے پو چھا گیا تو اس
نے اپنے انداز سے جواب دیا کہ جب چرغہ میرے ہاتھ کی حرکت کا محتاج ہے اورخود بخود
گردش نہیں کر سکتا تو اتنے بڑے گنبد افلاک کا چکر اور اس پر شمس و قمر دستار گان
کی سیر کسی خالق مدبر کے بغیر کیسے ممکن ہے مقصد یہ ہے کہ ہر ایک انسان وجود خالق
کو اپنی حیثیت کے مطابق جانتا ہے اور اس کے پاس ا سی حیثیت سے دلیل بھی موجود ہے
اوریہ اس مسئلہ کے انتہائی روشن اور واضح ہونے کی دلیل ہے پس خالق کی معرفت کے لئے
راستے اس قدرانسانی نفوس ہیں اورجب موجودات کاہر فرد بذات خو داپنی لازوال حکمتوں
اور مصلحتوں کےلحاظ سے خالق کے وجود اور اس کی حسن صنعت کی دلیل ہے تو پھر عقلی یا
نقلی فلسفی یا کلامی دلیل قائم کرنے کی ضرورت ہی کیاہے ہاں خواہشات و لذات دنیا
ویہ کے چکر میں پھنس کر دین و مذہب کی قیود سے آزاد ہونے والے بہت دھرمی سےاگر
کہہ دیں کہ کوئی خدا نہیں تو براہین ساطعہ اور اولہ قاطعہ کے مقابلہ میں ان کا قول
ایسا ہے جیسے مینڈک کی پٹاخ شیر کی گرج کے سامنے لہذا ان کی تردید میں زیادہ وقت
ضائع کرنا فضول ہے آخر میں بطور تتمیہ یاتبرک حضر ت سید الشہدا ءکی مناجات کے چند
فقرے ذکر کرتاہوں جن کو ابن طاوس قد ہ نے اقبال میں ذکر فرمایا ہے ۔
سبحانک ایکون لغیر ک من الموضوح
مالیس لک حتی یکون ھوا لمظھرلک متی غبت حتی تحتاج الی دلیل تدل علیک ومتی بعد ت
حتی تکون الاثار ھی التی توصل الیک ھی عین لا تراک ولاتزال علیھا رقیبا وخسرت
صفقتہ عبد لم تجعل لہ من حبک نصیبا
تسبیح تیر ی ہی ذات کو زینا ہے
کیا تیری ذات کے علاوہ اور کسی کو ا س قدر و ضاحت حاصل ہے جو تیری ذات میں نہ ہوتا
کہ وہ تیری مظہر بنےتو غائب کب ہےتاکہ تجھے ڈھونڈھنے کے لئے دلیل کی ضرورت ہو اور
تو دور کب ہے تاکہ آثار کے ذریعہ سے تجھ تک رسائی حاصل کی جائے وہ آنکھ اندھی ہے جو تجھے دیکھ
نہیں پاتی حالانکہ تو ہر وقت اس کا محافط ہے اس اانسان کی تجارت خسارے میں ہے جس
کے لئےتونے اپنی محبت سے ایک حصہ مقرر نہیں فرمایا