التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

نااہل خطیب و واعظ

3 min read

اس امر میں شک کرنے  کی گنجائش نہیں کہ جب تک دین خوشنودی پروردگار کا  ذریعہ اور شرف انسانی کے حصول کا وسیلہ رہے اس وقت تک اس کے فرائض کی بجا آوری ذمہ دار افراد کے ہاتھ میں رہتی ہے لیکن جب کسب دنیا کا وسیلہ و ذریعہ بن جائے تو وہ ہر قسم کی دھاندلی کا مرکز و محور بن جاتا ہے قوم یہود میں جب تک تورات حصول شرف کا ذریعہ تھا لوگ اس کے علوم کی تحصیل میں بڑی کدو کاوش سے کام لتیےتھے او ر اس کی آیات تحریف و تصحیف کے ظالم ہاتھوں سے محفوظ تھیں لیکن جب اسی تورات کو کسب معاش کا ذریعہ سمجھا گیا تو امیران خواہش و پرستار ان ہوس صاحبان اقتدار سے منافع حاصل کرنے کی خاطر علما ءتورات کا  رویہ مخدوش ہو گیا اور انہوں نے خوشنودی حق کی بجائے رضائے نفس  کو مقدم کرتے ہوئے دین کی ناموس کو تباہ کر دیا اور حقائق  شرعیہ کو کچلتے ہوئے صحف الہیہ کی آیات کر مسخ کرنا اپنا مشغلہ بنا لیا چنانچہ قرآن مجید ایسے ظالموں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے ترجمہ وہ کتاب یعنی تورات کواپنے ہاتھوں سے لکھ کر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے یعنی کتاب میں اپنی طرف سے مطالب جوڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرتے تھے ان کے بعد نصاری کے پادریوں کا بھی یہی حال ہوا جس کی بدولت شریعت عیسوی کا خوش نما چہرہ مسخ ہو کر رہ گیا

اب ہماری ہاں بھی یہی حالت بلکہ اس سے بھی زیادہ خطر ناک اور افسوس ناک ہے کہ ذکر حسین جب تک دین داری کی حد تک تھا اس وقت تک لوگ اس ذکر مقدس کو ایک ذمہ دارانہ عہدہ سمجھتے تھے اور جب سے یہ ذکر کسب معاش کاذریعہ سمجھا گیا ہے اس  دادی میں قدم رکھنے والے اپنے آپ کو ایک فن کار اور پیشہ در سمجھتے ہیں اور ظاہر ہے کہ مذہبی ذمہ داری کی بجائے اگر نظریہ کسب معاش اور پیشہ ہو تو اس میں خلوص  کس حد تک ہو گا اور دینی لحاظ کس پایہ تک ہو گا

خطیب و واعظ کا مقدس نام ہی اس امر کاغماز ہے کہ وہ ذمہ  دار افراد ہوں لیکن میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ بازار میں جس جنس کا نرخ زیادہ ہو لوگ اسی رنگ کواپنا  ناہی کامیابی و کامرانی سمجھتے ہیں پس ذمہ دارو اعظوں اور  اہل علم خطیبوں کی بجائے نااہل لوگ آگے بڑھے اور انہوں نے ذکر حسین اور فضائل محمدو آل محمد کے بہانہ سے وہ کھیل کھیلا کہ تورات و انجیل میں راہبوں اور پادریوں کو بات کردیا انہوں نے اس سلسلہ میں قوم کی جیبیں خوب خالی   کیں او ر عقائد اسلامیہ کا ایسا ستیاناس کیاکہ الا ٓان اور ظلم یہ کہ جب ذمہ دار حضرات نےقوم کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو لادینیت و شرک کے خطر ناک بھنور میں جاتے ہوئے دیکھا تو دین کی حفاظت کا علم لے کر اٹھ کھڑے ہوئے اور حدود توحید کو توڑنے والوں کو متنبہ کیا اور آل محمد کی فرمائشات پڑھ پڑھ کر سمجھانے کی کوشش کی تو فن کار لوگوں نے نہ ماننا تھا اور نہ مانے بلکہ الٹا علما ءکا منہ چڑانے لگ گئے اور انہیں دین کے دشمن کہہ کر خود دین کے علمبردار بن بیٹھے اگر ان کے اس طرز عمل کو بے دینی کہا جائے تو فورا اصلاح کرنے والوں کو عزاداری کادشمن کہا جاتا ہے اور اگر ان کی اصلاح سے اغماض کر لیا جائے تو معصوم کا فرمان ہے کہ بدعت کو دیکھنے کے بعد اپنے علم کو ظاہر نہ کرنے والا ملعون ہے پس دین کی حالت گندگی میں پڑے ہوئے نوالے کی طرح ہے کہ انسان اس کو اٹھائے تو ہاتھ نجس ہو جاتے ہیں اور رہنے دے تو ضمیر ملامت کرتی ہے کہ پروردگار عالم اپنی توحید و عظمت کے صدقہ میں  اور بتصدق محمد و آل محمد ان لوگوں کو ہدایت فرمائے اور خدا کی قسم ہماری قوم موجودہ خطابت و ذاکری سے ذہنی کو فت محسوس کرتی ہے لیکن انہیں یہ باور کرایا گیا ہے کہ دین صرف یہی ہے جو تم کر رہے ہو ایسی صورت میں اگر علماءآواز اٹھائیں تو صاحبان منبر فورا ان کا گلا گھونٹنے کی فکر میں رہتے ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ اگر دین کی تعلیمات اپنے صحیح اصولوں پر ہو گئیں تو ہمارے لقمہ تر کو نقصان پہنچے گا گویا ان کی دین تراشی جیب تراشی کا ذریعہ ہے

ایک تبصرہ شائع کریں