التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

شکوک و شبہات کا حل

7 min read

اس مقام پر چند شبہات ہیں جن کا جواب ضروری ہے ۔

پہلا شبہ
دوسرا شبہ
تیسرا شُبہ اور اس کا جواب

حضرت جبرائیل جب جناب مریم کے سامنے آئے تو مریم نے گھبرا کر فرمایا کہ اگر تیرے دل میں خوف خدا ہے تو مجھ سے دُور ہٹ جا ۔پس جواب  میں جبرائیل نے کہا میں اس لئے آیا ہوں کہ تجھے بچہ بخشوں لفظ یہ ہیں ۔{عربی }تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت جبرائیل نے مریم کو بچہ دیا تھا ؟ اور اگر جبرائیل کی طرف یہ نسبت صحیح ہے تو پھر انبیاء واد اوصیاء بھی یہ کام کرسکتا ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ محض مغالطہ اور ناخدا ترسی ہے ۔ایک مقام پر سورہ آل عمران میں ارشاد ہے کہ جب مریم بشارت دی گئی تو کہنے لگی ۔اے پرودگار مجھے تو بچہ کس طرح دے گا ۔حالانکہ میں شادی شدہ نہیں ہوں اور مجھے کسی مرد نے ہاتھ نہیں لگایا ۔تو ارشاد ہوا ۔{عربی}

یعنی اسی طرح اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرلیتا ہے اور جب وہ کسی  کام کا فیصلہ کرتا ہے تو اسکےارا وہ کن سے شیءہو جایا کرتی ہے ۔اب یہ آیت صاف بتا رہی ہے کہ عیسی کا خالق خود خدا ہے تو جہاں سورہمریم میں حضرت جبرائیل نے ہبہ کو اپنی طرف منسوب کیا وبحیثیت رسول پرودگار ہونے کے تھا چنانچہ کہا {عربی } میں تیرے رب کا فرستادہ ہوں ۔یعنی یہ ہبہ  اللہ کی جانب سے ہے ۔مثال کے طور پر اگر کسی کے ہاں کوئی مبارک بھیجی جائے تو بڑے آدمی جہاں خود نہیں جاتے وہاں اپنا غلام بھیج دیا کرتے ہیں اوران غلاموں کا لہجہ یہی ہوتا ہے کہ فلاں کا فرستادہ ہوں اور تجھے فلاں امر پر مبارکباد کہنے کو آیا ہوں اور  یہ کہا کہ بات کرنا کہ میں فلاں کی جانب سے آیا ہوں اس کی نیابت کو ظاہر کرتاہے ورنہ جہاں اپنی طرف سے بات کرنی ہو وہاں یہ نہیں کہا جاتا کہ مجھے فلاں نے بھیجا ہے بلکہ کہاجاتاہے کہ میں خود اس کام کے لئے حاضر ہوا ہوں اور عقیدہ کے لحاظ سے حضرت عیسی کو حضرت حضرت جبرائیل کا عطیہ کہنا ہی اسلام سے دور ی باعث ہے اور عقلی لحاظ سے بھی محال ہے کیونکہ ہبہ کی ہوئی شئے ہبہ کی ہوئی شءکرنے والے سے مرتبہ کے لحاظ سے کم ہوا کرتی ہے اور عطاکرنے والے اپنے عطیہ سے افضل ہوا کرتاہے ۔حالانکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ ملائکہ سے انبیاء افضل و برتر ہیں ۔پس ناممکن ہے کہ حضرت عیسی اولوالعزم نبی اپنے مفضول کا عطیہ وہبہ ہو ۔ہاں لوگ اگر محمد وآل محمد کے دروازہ پر التجا کریں اور خدا سے دعا مانگیں توخدا وند کریم ان کی دُعا کو مستجاب کرکے اولاد عطا فرماتا دیتاہے ۔

حضرت عیسی کا فرمانا {عربی } ترجمعہ :۔ میں تمہارے لئے مٹی سے ایک پرندہ جیسی شکل بناتا ہوں  پس اس میں پھونک ماروں گا تو باذن خدا پرندہ بن جائے گا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں مطلب صاف واضح ہے کہ کہ میں مٹی سے پرندہ کے بوتے جیسا ایک بوتہ بناتا ہوں اور مٹی سے کسی شیءکا بوتہ بنالیتا کمال نہیں یہ تو ہر شخص بنالیتا ہے ۔اس کے بعد فرمایا کہ میں اسمیں پھونک مارتا ہوں اور پھونک مارنا بھی کوئی بڑی بات نہیں ۔ہاں جو کام عیسی نہیں کرسکتے تھے وہ یہ ہے {عربی} کہ وہ حکم پرودگار سے پرندہ بن جاتا ہے اور اسی کام نام معجزہ ہے اورجہاں تک حضرت عیسی کے کام کا تعلق ہے وہ معجزہ نہیں بلکہ ہر شخص کرسکتاہے اور جہاں معجزہ اور خارق عادت امر کے ظہور کا مرحلہ آیا تو عیسی نے صآف کہہ دیا کہ میرے نہیں بلکہ اللہ کے اذن سے ہی وہ پرندہ بن جاتا ہے جس طرح حضرت موسی کا کام تھا ۔عصا کا پھینکنا اور اژ کا بنانا اللہ کا کام تھا لہذا جس طرح حضرت موسی کو اژ دہا کا خالق نہیں کہاجا سکتااسی طرح حضرت عیسی کو پرندہ کا خالق بھی نہیں کہا جاسکتا۔اس کے بعد ارشاد ہے {عربی }اللہ نابینا کو بینا مبروص کو تندرست اور مردہ کو زندہ کرتاہوں باذن خدا اور ان واقعات کو احادیث کی روشنی میں دیکھئے اور آئمہ طاہرین علہیم السلام کی تفا سیر کو ملاحظہ کیجئے تو صاف صاف مذکورہ ہے کہ وہ اللہ سے دعا مانگتے تھے اور اللہ ان کی دعا کو مستجاب فرماتے ہوئےنابینا کو بینا سے مبروص کو تندرستی سے اور مردہ کو تازہ زندگی سے مشرف فرماتا دیتا تھا اور نبیوں کی دعاوں سے ان کا امور کا لا وقوع پذیر ہونا اور خارق عادت امور کا منصہ شہود پر جلوہ اگر ہونا معجزہ ہے اور محمد وآل محمد ان معجزات سے بہت زیادہ دکھانے پر قادر تھے اور حضرت صالح علیہ السلام کے معجزہ سے پتھر سے ناقہ کے پیدا ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت صالح پیغمبر کو خالق مان لیا جائے ۔

کرنے اور کرسکنے کی دو لفظوں میں امتیاز نہ کرنا اکثر اوقات بڑی سے بڑی غلط فہمی کا باعث بن جاتا ہے معجزہ کی صورت میں کسی خارق عادت امر کو دکھانا کرسکنا نہیں ہوتا چنانچہ حضرت صالح کا پتھر سے ناقہ ظاہر کرنا بصورت معجزہ تھا کہ حضرت صالح کی تصدیق کے لئے خدا نے اس کو پیدا کیا تھا ۔پس حضرت صالح نے کردکھایا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بذات خود کرسکتے ہے وہ اسکا معجزہ نہیں ہوا کرتا بلکہ اس کی عادی رفتار ہواکرتی ہے انسان دیکھ سکتا ہے سن سکتاہے چل پھر سکتاہے لہذا یہ قوتیں انسان کے لئے معجزہ نہیں انسان اڑ نہیں سکتاپس اگر آڑے تو اس کے لئے معجزہ ہوگا اور اسی طرح پرندہ کا اڑنا معجزہ نہیں بلکہ بولنا  اسکا معجزہ ہے اور طوطا چونکہ عام طور پر سیکھ کر بول سکتاہے لہذا یہ اسکا معجزہ نہیں ہوگا ۔خلاصہ یہ کہ معجزہ اس امر کے صدور کانام ہے جو عادی رفتار کے خلاف ہو ۔

بنا بریں  انبیاء یا آئمہ کی دعاوں سے بعض اوقات مردوں کا زندہ ہونامعجزہ ہے جو باذن پر ودگار ان کے ہاتھ پر ظاہر ہوا۔کیونکہ معجزہ ہی ہوتاہے جو انسان خود نہ کرسکتا ہو اور کر دکھائے پس آل محمد کی اعجاز نمائی انکے خالق ورازاق ومحی ممیت ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی بلکہ ان کے معجزنما ہونے کی دلیل ہے اور نصریوں اور غالیوں نے چونکہ کرنے اور کرسکنے میں فرق نہیں کیا ۔لہذا وہ کفر کے ورطہ ظلما ءمیں جاگر ے ۔پس اگر یہ فرق مفوضہ گروہ کی سمجھ میں آجائے تو وہ بھی شاید راہ حق پر آجائیں ۔

قرآن مجید میں جہاں جہاں {عربی} کی لفظیں ہیں ان کا یہ مطلب نہیں کہ اسکے علاوہ کوئی دوسرا خالق یا رازق ہے مقصد یہ ہے کہ خدا وہ ہے جو بغیر مادہ و طبیعیت کے بغیر اسباب و آلات کے بغیر کسی مشورہ وصلاح کے اور بغیر محنت ومشقت کے اراوہ کن سےبڑی سے بڑی مخلوق کے پید اکرنے پر قادر ہے چنانچہ اس نے تمام آسمانوں زمینوں اور اس کے اندر ہزار ہا قسم کی مخلوق کو کتم عدم سے منصئہ وجود پر ظاہر فرمایا ۔باقی رہا مادہ سے کسی شئے کا تیار کرنا جس طرح مٹی سے عیسی کا بوتا بنانا یا سامری کا گوسالہ بنانا ۔بلکہ دور حاضر میں جو سائنس کا دور ہے ماہرین کا بڑی بڑی چیزوں کا ایجاد کرنا ۔چونکہ یہ سب مادہ موجود ہ سے ہیں ۔لہذا مبادہ کوئی شخص اس قسم کی حیرت ناک ایجادات و تعجب خیز مصنوعات کو دیکھ کر فریب خورہ ہو جائے اس لئے اپنے لیے اس نے احسن الخالقین کی لفظ پڑھائی کہ میری صنعت مواد و آلات اورمحنت کی  محتا ج نہیں ہے اسی طرح خیرالرازقین کی لفظ بھی اس مطلب کو ادا کرنے کے لیے ہے کہ رزق کے بنیادی اسباب و ذرائع زمین میں قوت نامیہ بیجوں میں قوت قابلہ آسمانوں سے بارش دریاوں کی روانی سورج کی روشنی چاند کی چاندنی ستاروں کی چمک اور ہواوں کی صرصراہٹ نہ معلوم کتنی چیزیں ہیں جو اس کارخانے قدرت میں انسان کے غذائی بندوبست کے لیے مصروف کارہیں ۔چونکہ اس کی حسن ایجاد اور پراز حکمت نظام سے وابستہ ہیں لہذا وہ خیرالراقین ہے ۔کیونکہ کے انسان میں سے کوئی کسی کو رزق یا غذا ء دیتا ہے تو وہ درمیان میں وسیلہ ہے پس اس قسم کے چکر میں سادہ ذہن لوگوں کو پھنسا کران کے ایمان کو تباہ کرنا انتہائی جرت اور زبردست جسارت ہے ۔بلکہ توحید خالق کے ساتھ کھلی ہوئی لڑائی ہے ۔

چوتھا شبہ اور اس کا حل :۔ علماءاعلام نے زیارت مطلقہ امیرا لمومنین علیہ السلام کے اس فقرہ کی توجہ فرما دی ہے جو مقام تشکیک بنا ہوا ہے اور مقصد یہ ہے کہ خدا وندکریم کی جانب سے ہونے والے امور کے متعلق آئمہ کو پہلے حسب مصلحت آگاہ کردیا جاتا  ہے اور ان کے بدولت ان امور کا علم لوگوں تک پہنچاتا ہے اوراسکا اشارہ شب قدر میں نزول ملائکہ کی طرف ہے کہ وہ مقادیر الامور لیے کر آئمہ کے پاس پہنچئے ہیں اور آئمہ حسب مصلحت لوگوں کو فرماتے ہیں ۔

علاوہ ازیں خطبتہ البیان کے الفاظ سے دھوکا کھا کر آئمہ کے لیے خلق ورزق و دیگر صفات پروردگار کا ثابت کرنا قرآنی آیات کو رد کرنے کے مترادف ہے اور ایسی باتوں پر اعتماد کرنا مذہب امامیہ سے کھلی بغاوت ہے اور یہ ایک مفروضہ خطبہ ہے جس کو حضرت علی کی طرف منسوب کردیاگیا ہے اور کتب صحیہ میں اس کا وجود نہیں ہے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں