اَفَمَنْ كَانَ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ وَ یَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ (سورہ ہود آیت 17 )
تفسیر مجمع البیان میں امام محمد
باقر علیہ السلام اور امام علیؑ رضا علیہ
السلام سے مروی ہے کہ آیت مجیدہ میں شاہد سے مراد حضرت علیؑ علیہ السلام
ہیں اور علامہ حلی اعلی اللہ مقامہ نے ذکر کیاہے کہ جمبہور اہل سنت نے بھی اس جگہ شاہد سے مراد حضرت علیؑ کو
لیاہے لہذا یہ ا-یت مجیدہ حضرت علیؑ علیہ
السلام کی خلافت بلا فصل پر نص ہے اور ابن روز
بہان نے اہل سنت کی تفسیروں میں اس کا حوالہ نہیں تسلیم کیا لیکن دلائل
الصدق ج2 میں اسے تفاسیر اہل سنت سے ثابت
کیا گیاہے چنانچہ فرماتے ہیں فخرالدین
رازی نے تفسیر کبیر میں شاہد کے معنی کے
متعلق چند وجوہ ذکر کئے گئے ہیں اور تیسری یہ وجہ
بیان کی ہے کہ اس سے مراد حضرت علیؑ ہیں ( اور ضمیر غائب کا مرجع یتلوہ
میں بینہ بتاویل برہان ہے ) اور منہ میں
ضمیر غائب کا مرجع من ہے یعنی وہ شاہد محمدؐ سے ہے اور اس کی جزو ہے اور سیوطی نے درمنثور میں حضرت علیؑ سے نقل کیاہے کہ آپ نے فرمایاکوئی قریشی ایسا نہیں جس
کے حق میں قرآن کا کچھ حصہ نہ اترا ہو تو ایک شخص نے کھڑے ہوکر عرض کی کہ ا-پ کے
حق میں بھی کچھ اترا ہے تو اٌپ نے سورہ ہود کی یہ آیت پڑھی افمن کان علیٰ بینۃ الخ
کہ جناب رسالتمآبؐ بیتہ پر تھے
اور میں اس کا شاہد ہوں اور اسی طرح طبری سے بھی منقول ہے اس کے بعد فرماتے
ہیں کہ یہ آیت چار وجوہ کی بناء پر حضرت علیعلیہ السلام کی خلافت پر دلالت کرتی
ہے
1
آیت مجیدہ میں حضرت علیؑ کو شاہد کہا گیاہے اور
شاہد سے مراد ہے امت پر شاہد ہونا اس
قرینہ سے آپ رسول کے تالی ہیں جس طرح رسول کو شاہد کہاگیاہے اناارسلنا شاھد اومبشراونذیر ا ( ہم نے تم کہ شاہد مبشر
اور نزیر بنا کے بھیجا ) اور باقی انبیاء
کے متعلق کہاگیاہے وجعلنا من کل امۃ شھیدا من انفسھم وجئنا بک شھید اعلیٰ ھؤلاء
یعنی ہم نے ہر امت کا شہید ان کے نفسوں سے بنایااور تجھے ان لوگوں پر شہید بنایا
) اور اس سے لوگوں کے امور میں ولایت
وحکومت شرعی ثابت ہو اہے پس حضرت علیؑ کو
شاہد کہنا لوگوں کے امور پر اسکی ولایت کو ثابت کرنا ہے اور یہی خلافت کا مفہوم ہے
2
آیت
مجیدہ میں علیؑ کو رسولؐ کا بعض
کہاگیاہے کیونکہ منہ میں من تبعیض کے لے ہے )
اور خود پیغمبر نے اس کی تائیدان
لفظوں میں فرمائی علی منی وانا منہ
اور یہ عصمت فضل اور باقی تمام صفات حمیدہ میں رسول ؐ کےساتھ علیؑ کی مشارکت کو ثابت
کرتی ہے پس علیؑ ہی رسولؐ کی خلافت کے
سزاوار ہوئے
3
آیت
مجیدہ میں علیؑ کو رسول ؐ کا تالی کہاگیاہے جیسے کہ ضمیر مزکر کا مرجع کے
ساتھ تطابق کا تقاضا ہے اور تالی ہونے سے مراد بلا فصل پیچھے چلنا ہے اور اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں پہلی
صورت یہکہ وہ انکے قائمقام ہوں دوسری صورت یہ کہ وہ بھی انکی طرح بینہ پو ہوں اور تیسری صورت یہ کہ انکی دعوت میں ان کے
مددگار ومعاون ہوں جیسے حجورؐ نے خود فرمایاکہ میں نے اللہ سے دعاکی ہے کہ وہ میری
کمر کو علیؑ کی مدد سے مضبوط کرے اور اس کو میرا شریک کار بنائے اور خدا نے وہ مستجاب فرمائی پس علیؑ نبی سے اس طرح ہیں جس طرح ہارون موسیٰ
سے تھے پہلی صورت میں تو خلافت ثابت ہوگئی
دوسری صورت میں جب انکی طرح بینہ پر ہیں
تو ان کے بعد ان کے قائم مقام ہونا یقینا ہیں اور تیسری صورت میں جب علیؑ ہی رسول
ؐ کا سب سے بڑا مدد گار ہے توخلافت کا بھی سب سے پہلا ھقدارہے
اگر یہ کہاجائے کہ ضمیر کا مرجع بینہ ہے جیسے گزر
چکا ہے تو معنی یہ ہوگاکہ علیؑ وہ ذات ہے جو حضرت محمد ؐ مصطفیٰ کی شہادت قرآن
مجید کی تلاوت سے دیتے تھے تو انکو رسالتمآبؐکا دوسرا معجزہ قرار دیا گیا پہلا
معجزہ بیتہ اور دوسرا معجزہ دو شاہد ہے جو بینہ کی تلاوتکرتاہے پس یہ حجرت علیؑ کی
تمام صحابہس ےافضل ہونے کی دلیل ہے پس وہی خلافت
کے حقدار ہیں (دلائل الصدق )