اولہ توحید اس قدر صاف وستھری اور پاک و پاکیزہ ہیں ۔کہ آسانی سے ہر سلیم الذہن انسان ان کو سمجھ سکتاہے ۔اور باوجود اس کے بھی اگر کوئی نہ سمجھے تو اسے خدا سمجھے تو اسے خدا ہم نے اپنا حق حتی الامکان ادا کردیا ہے اور مسئلہ کے چہرہ سے اجمال و اشکال کا غبار صاف ہو چکا ہے لیکن جن لوگوں کی طبعیت میں کج روی داخل ہو اور خواہ مخواہ ایک سیدھی سادی بات کو بھی الجھانا اپنا کمال سمجھتے ہوں ایسے لوگوں سے توقع رکھنا دانشمندی سے بعید ہے اور میں یقین سے کہتا ہوں کہ ان لوگوں کے پاس شکوک وشبہات کے علاوہ اور کچھ نہیں بعض آیات متشابہات سے تمسک کرکے محکمات و بینات کو چھوڑ دینا حق سے انحراف ہے خدا ارشاد فرماتا ہے ۔{عربی }
{عربی }یعنی جن لوگوں کے دل ٹیڑھے ہیں ۔وہ ا ن آیات کے پیچھے چلتے ہیں جو
متشابہ ہوں صرف فتنہ کی خاطر اوراس کی تاویل کی خاطر بہر کیف توحید حق جل شانہ کا
مسئلہ وجود حق سبحانہ کے مسئلہ کی طرح منصف طبائع
کے لئے بدیہی وروشن ہے اور ایک دو نہیں بلکہ اس پر بھی اس قدر دلیلیں ہیں
جس قدر نفوس بشریہ یعنی غیر متناہیہ ہیں کیونکہ کائنات عالم کا ذرہ ذرہ جس طرح
اپنے خالق کے وجود کا پتہ دیتا ہے اسی طرح اس کے لازوال مصالح اور بے حد وحساب حکم
و تدابیر اور مشتمل بر عبائب و غرائب نظام یہ سب خالق حکیم کی توحید کی بولتی ہوئی
زبانیں ہیں ۔