التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

ترک عدل کے مضرات

3 min read

الدین اولا سلام میں علامہ کا شف الغطاءاعلی اللہ مقامہ تحریر فرماتےہیں ابن طبا طبا فخری نے کتاب آداب سلطانیہ میں ذکر کیا ہے کہ بلا کوخان تاتاری مجوسی و ثنی نے جب 356 میں بغداد فتح کیا تو علمائے عراق سے  دریافت کیاکہ ایک طرف کا فر عادل ہواور دوسری طرف مسلمان ظالم ہو توحکومت کا سزا وار ان دونو میں سے کون ہے تمام علماءفتوی دینے سے گھبرا گئے مجلس میں سید رضی الدین ابن طاوس موجود تھے انہوں نے وہ کاغذ لے لیا جس میں استفادہ درج تھا اور کافر عادل کے حق میں فتوی صادر کر دیا اس کے بعد تمام علماءعراق نے دستخظ کردئیے کیونکہ حضرت رسالت مآب سے مروی ہے کہ ملک عدل سے قائم رہتا ہے اگرچہ کافر کے ہاتھ میں ہو لیکن ظلم سے قائم نہیں رہ سکتاخواہ مسلم کے ہاتھ میں کیوں نہ ہو ترک عدل کی سزا کی زد میں صرف عوام نہیں آتے بلکہ اس کی زد سلاطین کے لئے تدبر ہے اور عدل عوام کیلئے خوب ہے لیکن سلاطین کیلئے خوب تر ہے کیونکہ عام شخص کا عدل یا ظلم ایک محدد اثر رکھتا ہے اور سلطان و حاکم کا عدل یا ظلم بہت وسیع حلقہ تک پھیلا ہوا ہوتا ہے اس میں شک نہیں کہ جب ایک زمانہ تک عدل کو ترک کردیا جائے اور ازراہ سر کشی مقتضائے عد ل پر علمدر آمد نہ ہو تو طبائع ظلم کی عادی ہو جاتی ہے اور ان میں یہ صفت راسخ ہوجاتی ہے پس ایک دوسرے کی دشمنی دلوں میں گھرکر لیتی ہے حالانکہ وہ بھائی بھائی ہو ا کرتے ہیں ایسی صورت میں طاقتور درندے بن جاتے ہیں اور صاحبان اقتدار کے انسانی لباس کے اندر ایک خونخوار بھیْریا موجود ہو جاتاہے پس کمزور لوگوں اور بے بس رعایا کی حیثیت لاغرا ونٹوں یا بھیڑوں کے ریوڑ کی سی رہ جاتی ہے جبھی تو بوجہ عجزان کی آخری ہمت اور تگ و دو اپنے سے کمزور بھائی کا حق دبا لینے تک محدود ہوتی ہے اس سے اللہ کی عطا کردہ نعمات چھین لینا اس کی ہلاکت کے درپے ہونا اور اس کا نوچنا اور کاٹنااور ان کا محبوب مشغلہ ہوتاہے آپ ان کے دلوں کامعائنہ کریں گے تو بغض و کینہ و حسد بھر پور نظر آئیں گے احوال و اطوار میں وحشت و درندگی کےسوا کچھ نہ ملے گا گویا سب کے سب انسان نما جانور اورخونخوار درندے ہیں

ہاں ہاں یہ درندے کہاں ہیں بلکہ درندوں سے بھی بدتر ہیں کاش درندوں کی سی ایک خصلت بھی ان میں ہوتی کیونکہ کوئی درندہ اپنے افراد نوع پر حسد نہیں کرتا اور بہت کم ایسے درندے ہوں گے جو اپنے ابنا ئے جنس کے ساتھ جنسی ہمدردی اور سخی و روابط نہ رکھتے ہوں لیکن ان انسان نما درندوں سے و خدا بچائے ان کا سار اغصہ ہی افراد قوم اور اپنا ئے جنس کے لئے وقت ہوتاہے کیونکہ بھیڑ یا کبھی دوسرے بھیڑئیے کا گوشت نہیں کھاتا لیکن انسان انسان کا گوشت بڑے شوق و ذوق سے کھا لیا کرتا ہے ہر مملکت کے ارباب جل و عقد کو چاہیئے کہ وہ عدل و انصاف کا علم بلند کریں اور عدل سے انحراف کرنے والے تمام عملے کو عدل کے اصولوں کی طر ف مائل کریں اور ظلم سے باز نہ آنے والوں کو عبر ت ناک سزائیں دیں کیونکہ زمین میں ظالم کا وجود ایسا ہے جیسے بدن میں عضو فاسد اور بہتر یہی ہوتا ہے کہ جب اس عضو فاسد کا علاج نہ ہو سکے تو اسے سرے سے کاٹ دیاجائے تاکہ دوسرے اعضا اس سے آہستہ آہستہ متاثر ہو کر کہیں پوری مملکت جسم کا ستیاناس نہ کر دیں پس عدل ہی مدار زندگی اور معیار سعادت ہے عدل نہ ہو تو قوم ترقی نہیں کر سکتی حکومت میں عدل نہ ہو تو حکومت معرض زوال میں ہوتی ہے پس کیسے ممکن ہے کہ عالمین کا کلی نظام عدل کے بغیر پایہ تکمیل کو پہنچا ہوپس ماننا پڑے گا کہ خدا جو اس نظام اتم و اکمل کا سر براہ و سلطان اور مملکت تکوین میں اقتدار اعلی کا مالک و مختار ہے وہ عدل کی صفت سے متصف ہے وہ خود بھی عادل ہے اور تمام اپنی مخلوق کو بھی عدل کے اصولوں پر کار بند رہنے کی دعوت دیتاہے چنانچہ ارشاد ہے اعدلوا ھواقرب للتقوی تم عدل کرو کہ یہ تقوی کے نزدیک تر ہے بہر کیف یہ مسئلہ بد یہی اولی ہے اور اس کا منکر و جدان و عقل کا منکر ہے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں