جس طرح حضرت موسی سے بات درخت کے ذریعہ ہوئی یا شب معراج حضرت رسالت مآب سے حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے لہجہ میں ہوئی اور ارشاد ہوا کہ چونکہ علی سے زیادہ تجھے کوئی محبوب نہیں لہذا میں کلام کر رہا ہوں لیکن لہجہ علی کا ہے یہ روایت شیعہ و سنی دونو کتب میں موجود ہے مثلا تفسیر البرہان نیا بیع المودۃ وغیرہ پس وہاں وحی بصورت کلام تھی یہاں ایک سوال پیدا ہوتاہے کہ خداوند کریم ایک جگہ ارشاد فرماتاہے تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض منھم من کلم اللہ ورفع بعضھم درجت واتینا عیسی ابن مریم البینت الآیتہ ان رسولوں میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ان میں سے بعض وہ ہیں ج سے اللہ نے کلام کیا اور بعض کے درجات بلند کئے اور عیسی ابن مریم کو واضح دلیلیں عطا فرمائیں الآیتہ اس آیت میں صاٖف ارشاد ہے کہ بعض رسولوں سے اللہ نے کلام کیا اور ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہے وما کان البشران یکلمہ اللہ الا وحیا اومن وراحجاب اویر سل رسولا یعنی کسی بشر کیلئے سزاوار نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر یا تو بصورت وحی یعنی خواب یا الہام یاپس پردہ جیسے ہتف غیب یا فرشتہ بھیج کر بہر حال یہاں آیت مجیدہ میں کلام کی صاف نفی ہے تو ظاہری طورپر ان دونو آیتوں میں تنا فرما یا جاتاہے اس کا جواب ایک تمہید پر موقوف ہے تاکہ مقصد اچھی طرح واضح ہو جائے
اللہ کا کلام کرنا
1 min read