التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

افعال کی خدا کی طرف نسبت

5 min read

انسان کے عام افعال جو اس کے اختیار سے صادر ہوتے ہیں ان کو خدا کی طرف منسوب نہیں کیا جاتا حالانکہ بنیادی طاقتوں کے دینے والا وہی ہےمثلا زبان او ر قوت گویائی اس کی عطا کردہ ہے او ر بولنا ہمارےبس میں ہے قوت باصرہ اس نےدی ہے اور دیکھنا ہمارے اختیار میں ہے اور چلنے کی طاقت اس نے دی ہے اور چلنا ہمارے بس میں ہے وعلی ہذا القیاس اور یہ بس اور اختیار بھی اسی نے ہی دیا ہے صر ف استعمال کا حق ہمیں عطا فرمایا ہے گویا پوری مشنری اور اس کو چلانے کی  قوت و اختیار سب اس کا عطیہ ہے تاہم  فعل ہماریطرف ہی منسوب ہوتاہے اور یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر و طبیب مریض کاہرممکن علاج کریں اور بڑی کوشش و محنت کے بعد کامیاب بھی ہوجائیں تاہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کوہم نے شفا دے دی اسی طرح ان کے فعل کو بھی خدا کا فعل نہیں کہا جا سکتا مثلا یہ نہیں کہہ سکتے  کہ علاج خدا نے کیایا اپریشن خدا نے کیا کیونکہ یہ بندہ  کااپنا اختیار ی فعل ہے لیکن جو فعل بندہ کی موجودہ قوت سے بالاتر ہو اور اس کے حیطہ اختیار سے باہر ہو اس کو خدا کی طرف منسوب کرنا پڑتا ہے جس طرح شفا وغیرہ اور معجزہ کی بعینیہہ یہی صورت ہے کیونکہ وہ چیز اگر ان کے عام اختیارا ت میں داخل ہوتو نہ خاذق عادت ہے نہ معجز ہ اور نہ وہاں دعا کی ضرورت ہے جس طرح ڈاکٹر علاج اپنی مرضی و اختیار سے کرتے تھے اور خارق عادت کیلئے دعا مانگتے تھے البتہ ان کی خدا کے نزدیک عظمت و منزلت کے پیش نظر اس قسم کےواقعات تاریخ  میں بہت زیادہ ملتے ہیں کہ انہوں نے چاہا اور چیز ہو گئی یہ ان کے انتہائی قرب و محبوبیت کی دلیل ہے کہ انہوں نے ارادہ کیا اور دعا کےلئے ہاتھ نہ اٹھائے کہ خدا نے دعا سے پہلے ان کے ارادہ کوپورا کر دیا تاہم آئمہ  نے کبھی ایسی صورت میں اس شئیی کواپنی طرف منسوب نہیں فرمایا تھا بلکہ وہ خدا کی طرف منسوب فرماتے تھے معجزہ خدا اس لئے اپنے کسی نبی یا ولی کو عطا فرماتا ہے کہ اس کے ذریعے سے وہ  لوگوں کو توحید کی طرف دعوت دیں پس اگر معجزہ کوان کا اپنا فعل سمجھ لیا جائے تووہ ہرگز اقرار توحید کا ذریعہ نہیں بنے گا بلکہ الٹا منافی ہو جائے گا مثلا اگر صالح یہ فرمائیں کہ ناقہ کا پتھر سے پیدا کرنا میرا فعل ہے تو یہ توحید کی دعوت نہ ہوگی بلکہ ایسی صورت میں تومقصد توحید ہی ختم ہو جائے گا لوگ اسی کوخالق مانیں گے جو کرکے دکھارہا ہو گا اسی طرح توحید کی دعوت کے سلسلہ میں اگر خلق طیر یا مبروص و مجذوم کی صحت یا اندھے کی بصارت یااحیائے موتی کو حضرت عیسی اپنی طرف منسوب کرتے تو میں یقین سے کہتا ہوں کہ وہ بجائے موحدین کی جماعت پید اکرنے کےایک مشرکین کا گروہ پیدا کر جاتے حضرت عیسی فرماتے رہےکہ صرف وسیلہ ہوں درحقیقت پرندہ کا پید ا کر نابیماروں کو شفا یابی اور مردوں کی زندگی سب اذن پروردگار سے ہے تاہم آئمہ نے کبھی ایسی صورت میں اس شئیی کواپنی طرف منسوب نہیں فرمایاتھا بلکہ وہ خدا کی طرف منسوب فرماتے تھے معجزہ خدا اس لئے اپنے کسی نبی یا ولی کو عطا فرماتا ہے کہ اس کےذریعے سے وہ لوگوں کو توحید کی طرف دعوت دیں پس اگرمعجزہ کوا ن کا اپنا فعل سمجھ لیا جائے تو وہ ہرگز اقرار  توحید کا ذریعہ نہیں بنے گا بلکہ الٹا منافی ہو جائے گا مثلا اگر صالح یہ فرمائیں کہ ناقہ کاپتھرسے پیدا کرنا میر ا  فعل ہے تو یہ توحید کی دعوت نہ ہو گی بلکہ ایسی صورت میں تو مقصد توحید ہی ختم ہو جائے گا لوگ اسی کو خالق مانیں گے جو کر کے دکھا رہا ہو گا اسی طرح توحید کی دعوت کےسلسلہ میں اگر خلق طیر یا مبروس و مجذوم کی صحت یا اندھے کی بصارت یا احیائے موتی کو حضرت عیسی اپنی طرف منسوب کرتےتو میں یقین سے کہتا ہوں کہ وہ بجائے موحدین کی جماعت پیدا کرنے کے ایک مشرکین کا گروہ پیدا کر جاتے حضرت عیسی فرماتے رہے کہ میں صرف وسیلہ ہو ں درحقیقت پرندہ کا پیدا کرنا بیماروں کی شفا یابی اور مردوں کی زندگی سب اذن پروردگار سے ہے تاہم مشرکین کی ایک جماعت پیدا ہو گئی جنہوں نے ان کو وسیلہ سمجھنے کی بجائے خود فاعل سمجھ لیا اسی لئے تو اتمام حجت کے طور پر قرآن مجید میں ذکر فرمایا تاکہ لوگ معجزات کو نبی یا امام کا فعل کہہ کر ان جیسے شرک میں مبتلا نہ ہو جائیں حضرت عیسی کو خدا فرماتا ہے ءانت قلت للناس اتخذونی وامی الھین کیا تو نے لوگوں کو کہاتھا کہ مجھے اور میری ماں کو خدا مان لو؟

اور یہی وجہ ہے کہ حضرت موسی کے دل میں عصا کواژدہا بنانے کے بعد خوف ڈال دیا کہ وہ پیچھے بھاگ کھڑے ہوئے تاکہ دعوت توحید الٹاشرک نہ بن جائے چنانچہ جب جادوگروں نے دیکھا کہ وہ اژدہاان کے بنے ہوئے سانپوں کو کھا گیا تو اگر حضرت  موسی خود نہ ڈرتے تو وہ یہ سمجھتے کہ یہ سارا کمال اسی کا اپنا ہے لیکن ان کے خوف کھانے سے وہ بھانپ گئے کہ یہ اللہ کا فعل ہے پس وہ فورا خدا کے وجود کا اقرار کرگئے ورنہ وہ موسی کا اپنا کمال سمجھ کرشاید اس کو ہی خدا  تسلیم کرلیتے جو انقلاب حقیقت پر قادر ہے پس معجزہ کافائدہ ضائع ہوجاتا اور توحید کی بجائے شرک کا قد م آگے بڑھ جاتا اور اسی معجزہ کی حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہی تو نصیری مشرک ہوئےورنہ اگر حضرت علی کے معجزہ کووہ فعل خدا سمجھتے اور حضرت علی کو اس کا وسیلہ اور معجزنما جانتے تو کیوں غلطی کرتے ؟

ایک تبصرہ شائع کریں