حضور ﷺ چالیس بر س کی عمر رکھتے تھے جب بعثت ہوئی اور اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اب سے نبی بنائے گئے بلکہ شیخ صدوق نے عقائد میں ذکر فرمایا ہے
ان اللہ بعث نبیہ محمد
الانبیا ی فی الذر وان اللہ عزوجل اعطی کل نبی علی قد ر معرفتہ ومعرفتہ نبینا محمد
وسبقہ الاقرار بہ ونعتقد ان اللہ تبارک وتعالی خلق جمیع الخلق لہ ولاھل بیتہ وانہ
لولا ھم لما خلق اللہ سبحانہ السماءوالارض ولا الجنتہ ولا النار ولا آدم ولا حوا
ولا الملائکتہ ولا شیئا مما خلق
تحقیق اللہ نے عالم ذر
میں حضورکو نبیوں کے لئے مبعوث فرمایا اور
تحقیق اللہ نے جو کچھ بھی کسی نبی کو عطا فرمایا وہ اللہ کی معرفت اور ہمارے نبی
محمد ﷺ کی معرفت اور اس اقرار میں سبقت کی بنا ءپرہی تھا اور ہمارا عقیدہ ہے کہ
اللہ سبحانہ نے تمام مخلوق کو ان کے لئے اور ان کی اہلبیت کے لئے خلق فرمایا اگر
یہ نہ ہوتے تو خداوند کریم نہ آسمان و زمین کو پیدا کرتا نہ جنت و نار کو نہ آدم
و حوا کو اور نہ کسی فرشتہ کو بلکہ مخلوقات میں سے کسی شئیی کو بھی پید ا نہ کرتا
اسی بنا ءپر ایک حدیث
حضور ﷺ کی جانب منسوب ہے کنت نبیا وادم بین الماءوالطین میں اس وقت نبی تھا جب
آدم پانی اور مٹی کے درمیان تھے بہرکیف چالیس برس کے بعد نبی علیہ السلام مبعوث
ہوئے ورنہ نبی پہلے سے تھے جب عالم ظاہر میں تشریف لائے تو نبی تھے جب عالم انوار
میں تھے خلاصہ یہ کہ آپ جب سے تھے نبی تھے ہمارے عقیدہ میں نبوت کا عہدہ دھبی ہے
یعنی عطیہ پروردگار ہے ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاءیہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہے
عطا کرے چنانچہ حضر ت عیسی علیہ السلام ابھی گہوارہ میں جھول رہے تھے حضرت مریم بتول
پاس بیٹھی جھولا جھلا رہی تھیں یہودیوں نے اعتراضات کی بوچھاڑ کردی اور سخت و سست
الفاظ سے اپنی زبانو ں کو ناپاک کرناشروع کیا یا اخت ھارون ما کان ابوک امراءسوءوما
کانت الآیتہ اےہارون کی بہن تیرا باپ برا نہیں تھا اور تیری ماں بھی بدکار نہ تھی
تو نے یہ کیاظلم کیا ہے کہ بغیر شوہر کے صاحب اولاد ہو گئی تو ان کی بدکلامی سے
متاثر ہو کر آخر جھولے میں سونے والے بچے کی طرف اشارہ فرمایا کہ اس سے خود
دریافت کر لو فاشارت الیہ کیونکہ حضر ت مریم کو پہلے سے بشارت دی گئی تھی کہ ہم جو
تجھے بچہ دیں گے و ہ رسول ہو گا اور صاحب اعجاز ہو گا جیسے کہ روح القدس کے الفاظ
قرآن مجید میں مذکور ہیں اسی بنا پر اس نے بچے کی طرف اشارہ کیا اور ان کو معلوم
تھا کہ جوحجت خدا ہوتاہے وہ بچنپنے میں بھی حجت کے فرائض ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا
ہے تو وہ نااہل کہنے لگے جو حجت خدا کی معرفت سے کورے تھے کیف نکلم من کان فی
المھد صبیا ہم اس سے کیسے بات کریں جو جھولے میں ہے اور بچہ سے پس یہ سن کر حضرت
عیسی بو ل اٹھے جو ابھی تین دن کے تھے انی عبد اللہ اتانی الکتاب وجعلنی نبیا میں
اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب بھی دی ہے اور نبی بھی بنا کر بھیجا ہے
جو بات خارق عادت ہو مادہ و طبیعت کے قیدی اپنی نارسا عقول اور فریب خوردہ
اذہان سے حقیقت کی تیہ تک نہ پہنچے کے باعث دھوکا کھا جاتے ہیں اور جس سے ایسی بات
ظاہر ہو اسے ہی اس کا سبب تام اور علت وجود ماننے پر تل جاتے ہیں چنانچہ حضرت عیسی کو خدا کا بیٹا کہنے والوں
کی جناعت پیدا ہو گی اسی خدشہ کو خود اللہ کا رسول محسوس کر رہا تھا اگر چہ وہ ابھی
تین دن کا بچہ تھا کہ مبادہ خارق عادت فعل
سے دھوکا کھائیں پہلے سے ہی وضاحت کر دی
کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس کے بعد کہا مجھے خدا نے کتاب دی ہے اور نبی بنا کر
بھیجا ہے کر دی خدا وند کریم نے بھی حضرت عیسی کی عبدیت کا اعلان فرمایا لن یستنکف
المسیحان یکون عنداللہ یعنی نہیں سرتابی کرتے حضرت عیسی اس بات سے کہ وہ اللہ عبد
ہوں اس واقع سے میں نے یہ بات پیش کرنی ہے کہ حضرت مریم کی ولادت حضرت عیسی سے قبل
حضرت عیسی کی نبوت و رسالت و اعجاز نمائی کی خبر دی گئی تو حضرت مریم کو بچہ کی
پیدائش کے ساتھ ساتھ ہی یقین تھا چنانچہقوم یہود کے اعتراضات کے بعد بلا تامل
جھولے کی طرف اشارہ کر دیا اور حضرت عیسی نے پھر اپنے عمل سے مہر تصدیق ثبت کر دی پیلے اپنی عبدیت کا اعتراف
کیا تاکہ مجھے قبل از وقت بولنے پر خدا نہ مان لین اور پھر اپنا صاحب کتاب ہونے کا دعوی کیا اور نبوت کا اعلان فرمایا اس سے یہ بھی
معلوم ہوا کہ0020کتاب فرشتہ کی تدریگی آمد سے عطا
نہیں ہوتی بلکہ نبی کو یکمشت اس کا علم
دیا جاتا ہے پھر حسب مصلحت موقعہ موقعہ پر اس کی تفصیل بصورت آیات اعجازی شکل میں
یا عام یا عام لباس میں پیش کی جاتی ہے اسی بنا پر حضرت عیسیٰ کتاب کا دعویٰ کر
رہے تھے اور نبوت کا اعلان بھی اسی قسم کا تھا کہ مجھے نبی بنایا نہیں جائے گا
بلکہ نبی بنا کر مجھے بھیجا گیا ہے
پس معلوم ہوا کہ نبی آکر نہیں بنتے بلیہ بن کر آتے ہیں پہلا نبی حضرت آدم وہاں
سے بن کر آیا اور فرشتوں کا بھی معلم بن کر آیا ایسا نہین کہ یہاں آکر بنا ہو
پس گزشتہ نبیوں میں پہلے نبی آدم اور آخری
نبی عیسیٰ جب بن کر آئے اور اس کا قرآن شاید ہے تو درمیا ن والے سارے نبیو ں کا
یہی حال ہے پس جب دستور نبوت ہی یہی ہے تو جناب رسالتماب کے مطلق یہ کہنا کہ وہ
یہاں آکر چالیس سال گزرنے کے بعد نبی بنائے گئے دستور نبوت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے
ہے ہاں استعداد کے لحاظ سے وہ نبی بن کر آئے البتہ تبلیغ نبوت پر چالیس برس کے بعد
مامور ہوئے –
پس یہاں بھی ماننا پڑے گا کہ حضرت عیسیٰ کی طرح یہ بھی کتاب کے کر اور نبی ع
رسول بن کر تشریف لائے ہیں البتہ تفصیلات کتاب حسب موقعہ و مصلحت آیات کی شکل میں
وقتا فوقتاٰ اترتی رہیں اور وہ وہی کتاب ہے جس کے مطلق ارشاد قدرت ہے
ہم نے اس کو تیرے دل پر نازل کیا ہے یا یوں سمجھئے کہ نبی کا سینہ جو علوم نبویہ
کا خزینہ ہے وہ علون معرف الہیہ کی مقدس کتاب ہے پھر ظاہری طور پر اعلان نبوت کے
بعد اس کتاب کے علوم تین طریقوں سے معرض اظہار میں آئے کچھ حصہ معجزہ کی شکل میں
خداوند کریم کی جانب سے بزریعہ جبرائیل
آیات قرآنی کا لباس پہن کر سامنے آیا اور کچھ حصہ خدا کے مکالمہ خصوصی کے زریعے یا
جبرائیل کی دساطت سے حدیث نبوی کی شکل میں ہم تک پہنچا اور ان سب کے مطلق خدا کی
جا نب سے سندیہ ہے مااتاکم الرسول فخذ وہ اما نھا کم عنہ فانتھوا