بعض روایت میں ہے کہ ایک دفعہ زمین کعبہ نے اپنی برتری پر ناز کیاکہ مج جیساکون ہے میں کعبہ کا مسکن ہوں تو فورا وحی الہی ہوئی خاموش اے زمین کعبہ کربلاکی زمین کے مقابلہ میں تیری فضلیت کو وہ نسبت ہے جو نوک سوزن کے پانی کو سمندر سے اگر وہ زمین اور اسکےساکن کو میں خلق نہ کرتا تو تجھے پیدا نہ کرتا اور نہ تیرا کعبہ ہوتا (مرادی ترجمہ کیاگیاہے ) سفینتہ البحار اس حدیث میں ان لوگوں کو تنبیہہ ہے جو کعبہ کی طرف جھکتے ہیں اور کربلا والوں کو پس پشت ڈالتے ہیں جو کعبہ کی حرمتکا باعث بنے یعنی انسانوں کو صرف کعبہ کی طرف جھک کر بخشش کا یقین نہیں کرلینا چائیے جب تک اس مھسن کو نہ پہچانیں جس نے اپنے خون گلو سے کعبہ کی توقیر وعظمت کو چار چاند لگادیئے خدا کی قسم اگر ان کی سرفروشی نہ ہوتی اور انکی قربانیوں سےاسلام کی حفاظتی حصار کی تعمیر نہ ہوتی تو اسلامی ڈھانچے کو یزیدی طاغوتی حملے روح ایمان سے کھوکھلا کرکے رکھ دیتے نہ اسلام رہتا نہ بیت اللہ کی حرمت رہتی اور نہ حج کرنے والے رہتے پس حسینؑ نے بیت اللہ کی لاج رکھ لی اس میں شک نہیں کہ مدینہ منورہ ہدایت خلق کا سرچشمہ رہاہے لیکن ایک وقت محدود کےلئے کیونی یہ ناقابل فراموش تاریخی حقیقت ہے کہ جب اسلامی شرعی حدود کی پامالی کےلئے اموی سلاطین جور نے اپنی اندھا دھند پیش قدمی سے اسلامیان عالم کو ظلم واستبداد کے اوچھے حربوں سے مرعوب کرلیا اور تعلیمات اسلامیہ کو چیلنج کرتے ہوئے شریعت کے نورانی چہرہ پر اپنی بداعمالیوں کی نجاستوں کی گندگی کو ڈالناچاہا اور اسے داغدار بنانے کےلئے ہر ممکن طریقہ کو بروئے کار لاتے ہوئے بڑے بڑوں کو اپنے دام تزویر میں پھنسالیا تو صرف حسینؑ بن علیؑ کا وجود مسعود تھا جو اس کی ظلمانی طوفانی شیطانی لہروں کےسامنے کوہ گراں بن کر سینہ تان کے کھڑا ہوگیا اور اپنی پوری کوششوں سے استبدادی حربوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت پی کر السلام کی بقاء حیات جادوانی کی تحریر اپنے خون ناحق اے صفحہ کربلا پر لکھ دی اور پھر بتول زادیوں نے اپنے خطبات واعلانات اور صبر ورضا کے مظاہرات سے اس تحریر کو ایس اچمکایا کہ قیامت تک کےلئے تمام اقوام عالم کو حق وناحق کے درمیان فیصلہ اپنی اپنی منزلوں میں نظر آگیا پس خداوندکریم نے زمین کربلا کو جوخصوصیات عطافرمائیں وہ یہ ہیں
1 زلزلہ قیامت کے وقت اس زمین کو ٹھالیاجائے گا
اور یہ خطہ جنت کے تمام خطوں سےاشرف وافضل
ہوگا جنت کے باغات میںیہ زمین اس طرح چمکے گی جیسے کوکب دری باقی ستاروں میں
چمکتادمکتا ہے حتاکہ تمام اہل محشر خیر گی محسوس کریں گے
الخبر
1
خاک شفاکی تسبیع
سے استغفار کرنا ستر گنازیادتی ثواب کا موجب ہے
2
خاک شفاکی تسبیح کا ہاتھ مین
رکھنا دوسری عام تسبحوں پر پڑھنے کے برابر
ہے
3
خاک شفا پر سجدہ کرنے سے عبادت کی
روکاوٹ کےساتحجابات دور ہو جاتے ہیں اور
نماز مقبول ہوتی ہے
4
خاک شفاکا پاس رکھنا خطرات سے
بچنے کا تعویز وحرز ہے بشر طیکہ بغرض
حفاظت اپنے پاس رکھے
5
اگر سامان تجارت میں خاک شفاکو
رکھا جائے تو تجارت میں برکت ہوتی ہے
6
نوزائیدہ بچے کے
حلق میں ڈالنا اس کی امن وسلامتی کا باعث ہے
7
میت کےساتھ قبر میں رکھنا
عذاب قبر سے امان کا باعث ہے
8
زمین کربلا میں دفن ہونے والا
بلاحساب جنت میں جائے گا جس طرح نجف میں
دفن ہونے والا عذاب قبر سے محفوظ ہوگا
9
زمین پر اترنے والے فرشتے جب واپس جاتے ہیں تو حوران جنت ان سے
خاک شفابطور تحفہ طلب کرتی ہیں
10
یہی زمین حضرت عیسیٰؑ کی ولادت گاہ ہے
11
حضرت موسیٰ کو بھی اس زمین میں شرف کلام حاصل ہوا تھا
12
اس مقدس زمین پر واقعات کربلا سےقبل دوسو نبی اور دوسووصی اور دو سوسبط دفن ہوئے جو درجہ شہادت پر فائز تھے مخصراخصائص حسینیہ
ہم نے ان خسوصیات کو تفسیر
انوارالنجف میں اور زیادہ بسیط لھاہے ان چار حرموں
کی باقی تمام زمین کےخطوں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ انکو مسافردوران سفر مین بھی اپنا گھر قرار دے سکتاہے پس مسافر حالت سفر میں ان چار مقامات پر
نمازقصر واتمام میں صاحب اختیار ہے چاہے
پوری پڑھے اورچاہے قصر بڑھے یعنی مسجد الحرام مسجد نبوی مسجد کوفہ اور حرم سیدالشہداء بعض علمائے اعلام نے باقی مشاہد مشرفہ کو بھی اس حکم میں ان چاروں کے ساتھ شامل کیاہے
اور چونکہ زمینوں تزکرہ ہی ہے لہذا
مناسب ہے کہ دوزمینوں کے اور دوخطوں کا
ذکر بھی ہوجائے جنکا شیعی معتقدات سے تعلق
ہے