چونکہ حضرت سیدالانبیا جنا ب محمد مصطفی ﷺ تما م انبیا و مرسلین سےافضل واشرف ہیں او ران کادائرہ نبو ت سب سے وسیع ترار ہمہ گیر ہے اور کبھی منشا پروردگار کے خلاف ان سےکوئی قول یا فعل سرزد نہیں ہوتا تھا اس لئے ان کے قول و فعل کو پروردگار نےاپنی طر ف منسوب کرتے ہوئے فرمایا ما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی پارہ 27 النجم میرا رسول اپنی مرضی سے کلام نہیں کرتاوہ جو کچھ بولتا ہے میری وحی ہی ہو ا کرتی ہے وما رمیت اذرمیت ولکن اللہ رمی الآیتہ ترجمہ اور جو تونے تیر مارا تھا وہ تونے نہیں بلکہ اللہ نے مارا تھایداللہ فوق ایدیھم الاایتہ بیعت کے وقت انکے ہاتھوں پر نبی کاہاتھ نہیں تھا بلکہ فرمایا اللہ کاہاتھ ان کے ہاتھوں پر تھا وعلی ہذا القیاس اور حضرت علی سے لے کر حضرت قائم علیہ السلام تک تمام آئمہ حضور کے صحیح قائم مقام ہیں اس کی مثال یوں سمجھئے جس طرح ایک آقا اپنے عبدخاص کو جو اس کا پورا مطلیع وفرمانبردار ہوا پنے غلاموں پرحاکم بنا دیا کرتاہے اور اپنے تمام اوامرونواہی اس کے سپرد کر دیا کرتا ہے پس جناب رب العزت نے محمد وآل محمد کو نظام تشریعی میں اپنے تمام بندوں پر حاکم اعلی مقرر فرما کر امور شرعیہ کو ان کے سپرد فرما دیا چنانچہان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ جس کا مقصد یہ ہے کہ اگرانسان چاہے کہ میں اللہ کامحب و محبوب ہو جاوں او رخدا مجھے اپنا مقرب بنا لے تو اس پر واجب ہے کہ حضرت رسالت مآب محمد مصطفی کی اتباع و اطاعت کو شعار بنائے نیز ارشاد فرمایا مااتکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا یعنی تم کو جو رسول دے لے تواور جس سے تم کو رسو ل روکے رک جاو علاوہ ازیں دیگر آیات بینات بھی ہیں جن سے یہی مفہوم نکل سکتا ہے پس او امرونواہی میں ان کاحکم شریعت ہے او ر ان کا فرمان دین ہے جوان کے حکم کی اطاعت کرے گا وہی دین دار کہلانے کا حقدار ہوگااور جو ان کے فرما ن سے سرتابی کرےگا وہ بے دین ہو گا خدا وند عالم کے صریحی حکم کے بعد اثبات مقصد کے لئے کسی حدیث کو پیش کرنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا البتہ تقویہ ایمان یا تشحیذ اذہان کے لئے بطور تائید مطلب کے صر ف ایک روایت ہی کافی ہے جو بحوالہ تحفہ کشف الٖغمہ بروایت جابر بن عبد اللہ انصاری جناب رسالت مآب سے منقول ہےان اللہ خلق السموت والارض ثم دعا ھن فاجبن فعرض علیھن نبوتی ودلایتہ علی بن ابی طالب فقیلنھا ثم خلق الخلق وفوض الینا امرالدین فالسعید من سعدبنا والشقی من شقی بنا نحن المحللون لحلالہ والمحرمون لحرامہ ترجمہ اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا پھرا ن کو اپنی اطاعت کی طرف بلایا تو انہوں نے قبول کیا پس ان پر میری نبوت اور علی بن ابی طالب کی ولایت کو پیش کیاتو انہوں نے قبول کیاپھر باقی مخلوق کو پیدا کیا اور دین کا معاملہ اس نے ہمارے سپرد کیا پس نیک بخت وہی ہے جو ہماری وجہ سے نیک بخت ہواور بد بخت وہ ہے جو ہماری وجہ سے بدبخت ہوہم ہی اس کے حلال کو حلال کہنے والے ہیں اور ہم ہی اس کے حرام کو حرام کہنے والے ہیں جب دلیل عقل و نقل سے ثابت ہو گیا کہ محمد وآل محمد دینی و شرعی معاملہ میں مختار کل ہیں تو جس کو یہ حلال کہیں گے وہ حلال ہو گا اور جس کو یہ حرام کہیں گے وہ حرام ہو گا محمد و آل محمد علہیم السلام کی محبت کا دم بھرنے والوں پریہ فرض عائد ہوتا ہے کی سوچیں کہ قرآن مجید نے انکی جس تفویض کا اعلان فرمایا ہے اس سے ہم نےکیاحاصل کیاہے نظام تکوین اضطراری نظام ہے جس کے متعلق خدا فرماتا ہے اذا اراد شیئا ان یقول لہ کن فیکون کہ جب وہ کسی شے کے متعلق ارادہ فرماتا ہے توا س کے کن کہنے سے شئی ہو جاتی ہےیعنی اس کے ارادہ سےچیز کتم عدم سے منصہ وجود میں قدم رکھ لیا کرتی ہے لیکن نظام تشریعی ایک اختیاری نظام ہے جس کے متعلق ارشاد قدرت ہے لا اکراہ فی الدین یعنی دین میں کسی کے لئے زبردستی نہیں ہے ہاں جو لوگ اپنے اختیاری افعال کو شرعی قیود سے آزاد کرانے کےدرپے ہوتے ہیں وہ ادھر ادھر کی باتوں میں الجھانے کی سوچتے ہیں اورعوام کو فریب خوردوہ کر کے اپنا مطلب نکالتے ہیں تاکہ آل محمد کی سیرت و کردار جو دین کی دعوت کااتم و اکمل طریقہ ہےاس کے سامنے ہمیں جھکنے پر مجبور نہ کیا جائے اضطراری نظام کوآل محمدکے سپرد کر نے کے بجائے ذرا ان کےاختیاری نظام کے آئینے میں اپنے کردار کا جائزہ تولے لیں کہ ہم سےوہ کیا چاہتے ہیں اور ہم کیا کچھ کر رہے ہیں پس نظام تکوین مثلا خلق و رزق کے معاملہ میں اگر قرآن مجید کی آیات و اضحات کی تلاوت کی جائے توا س کے مقابلہ میں انتہائی ضعیف روایات کا سہارا لینا معقو ل نہیں ہے بلکہ قرآن مجید کی آیات کے خلاف جوروائیت ہو بفرمان آئمہ وہ دیوار پرمارنے کے قابل ہے نہ کہ اس کو عقیدہ کی اساس قرار دیاجائے اور یہ انتہائی ایمانی کمزوری ہے کہ جب سیرت و کردار اورصورت و عمل کے متعلق آئمہ کا صحیح فرمان و عمل نقل کیاجائے مثلا کسی ریش تراش سے کہا جائے کہ ڈاڑھی مندوانا حرام ہے اور محمد وآل محمدکابھی عمل یہی تھا تو فورا قرآن مجید سےاسکاثبوت طلب کیاجاتا ہے دیکھئے جہاں معاملہ بالکل ان کے سپرد ہےوہاں ان کے فرمان سے تسلی نہیں اورنہ ان کا عمل کافی ہے بلکہ آیت کا مطالبہ کیا جاتاہے اورجہاں خدا ورسول وآئمہ سب متفق ہیں کہ امور تکوینیہ میں سوائے اللہ کے کسی کا کوئی دخل نہیں اور قرآن کی تصریحات بھی موجود ہیں وہاں روایت کو عقیدہ کا سہارا بنا لیاجاتاہے وجہ یہ ہے کہ جہاں کرنا کچھ نہیں پڑتا صرف زبانی ھاو ہو سے کام نکلتا ہے وہاں قرآن کی پرواہ نہیں اور جہاں عمل کرنا پڑتا ہے وہاں آئمہ کے فرمان سے جان چھڑانے کا بہانہ تلاش کرتے ہوئے قرآن کا سہارا لیا جاتا ہے کہ ڈاڑھی قرآن میں کہاں ہے
نظام تشریعی میں تفویض ۔
5 min read