اس ساری وضاحت یہ کہنے کی مجال نہیں رہی کہ فرشتہ ہوا چلا سکتا ہے تو آئمہ کیوں نہیں چلاسکتے ۔وہ بارش برسا سکتا ہے تو یہ کیوں نہیں برسا سکتے ؟وعلی القیاس
اولا تو یہ کہنا کہ فرشتہ فلاں فلاں کام کرسکتاہے ۔غلط اور بے معنی ہے
کیونکہ ہم نے ثابت کیا ہے کہ تکونیات کی انجام دہی پر جو قوتیں نامور ومسلط ہیں
۔خواہ عالم اکبر میں فرشتے ہوں یا عالم اصغر میں قوائے بدنیہ ہوں ان کے افعال
اختیاری نہیں بلکہ اضطراری ہیں ۔پس فرشتے کرسکتے نہیں بلکہ وُہ کرنے پر مجبور ہیں
خدا جسے بھی تکونیا جس کام پر مامور کردے اس نے وہ کام کرنا ہی ہے کیونکہ علی کلی
شیءقدیر کی تکوین وتقدیر کو کوئی رد نہیں کرسکتا ۔جس طرح سُورج روشنی دینے میں اور
چاند چاندنی پھیلانے میں مجبور رہے اسی طرح کائنات عالم میں ہر تکوینی امر بے چوں
وچراتا رہے گا اوراس پر مامور ومسلط طاقت فرشتہ ہوا کوئی اوروہ اس فریضہ کی انجام
دہی پر مجبور محض ہے ۔ثانیا ہم نے ثابت کیا ہے کہ نظام دو ہیں ایک توین اور دوسرا
تشریع اور یہ دونو محکمے الگ الگ ہیں اور نظام تکوین سے اشرف وارفع ہے پس ایک کو
دوسرے پر قیاس کرنا بالکل لغو اور فضول ہے جس طرح کہا جائے قوت عاضمہ غذا کو ہضم
کرسکتی ہے ۔تو عقل جوا س سے افضل ہے غذا کو کیوں ہضم نہیں کرسکتی اسی طرح بے ہو دہ
ہو گا ۔اگر کہا جائے کہ فرشتہ ہوا چلاتا
ہے اور بارش برساتاہے تو محمدوآل محمد یہ کام کیوں نہیں کرسکتے ہیں
ثآلثا :۔جوا پنے اختیار سے اپنے مولا کا مطیع اور فرمانبردار ہو اور اس سے بد
جہا افضل ہے جو مجبور ہو کر اطاعت گذار ہو محمد وآل محمد جب اختیاری اطاعت میں
تمام انبیاء مرسلین سے سبقت لے گئے ہیں ۔پس ان کو اضطراری اطاعت والوں پر قیاس
کرنا ۔آل محمد کی انتہائی نا قدر شناسی ہے ۔
رابعا :۔ملائکہ کی پوری جنس اوراس کے تمام افراد سے محمد وآل محمد اشرف وافضل
ہیں تو غلام کے عہدہ کو کمال سمجھنا اور آقا کے لئے وہ کام ثابت کرنا بصیرت کو
تاہی ہے جس طرح گھوڑا انسان کا خادم ہے جب کسی کو گھوڑے کی دوڑ پسند آجائے تو کہنے
لگ جائے کہ سردار ہےاور اس سے افضل ہے وہ تواس سے بھی تیز دوڑسکتے گا توایسے خیالا
آقا کی ناقدردانی اور کو بصیرت ہونے کی علامت ہے ۔
خامسا :۔جو ہر عقل وعلم شرف انسانی کا معیار ہے اورجو ہر نبوت وولات وہ اشرف
جوہر ہے کہ تمام صاحبان عقول اس کی بدولت ان کے غلام ہیں ۔پس سید الانبیاء یااس کے
اوصیائے طاہرین کے فرائض منصبیہ باقی تمام جن وانس اورملک ونبی کے فرائض منصبیہ سے
اہم واشرف ہوں گےتو ایسی صورت میں یہ کہنا کہ فرشتہ فلاں کام کررہا ہے تو نبی
وامام کیوں نہیں کرہے انتہائی حماقت ہے ۔
سادسا:۔نبوت وولایت کا عہدہ خدا کی جانب سے عطا شدہ تمام عہدوں سے افضل ہے
خصوصا تکوینی فرائض کے انجام دینے والوں سے قو بدرجہا افضل ہے کیونکہ وہ اضطراری
ہیں اور یہ اختیاری لہذا ان کا پر قیاس کرنا غلط ہے ۔ایک چراغ جو انسان کی خدمت کے
لئے ہے اور روشنی دیتا ہے پس یہ کہناکہ وہ روشنی دیتا ہے تو انسان کیوں نہیں روشنی
دیتا جو اس سے افضل ہے اس سے بڑھ کر کو رباطنی اور کیا ہوسکتی ہے ؟
سا بعا :۔موسی سے کلام کرنے کے لئے خدا نے درخت کو گویا کر دیا اور حضرت یوسف
کی عصمت کی شہادت کے لئے بچنے کو طاقت دے دی ۔پس جس طرح اس نے تکوین کے کارخانہ
جات چلانے کے لئے ملائکہ کی قہری ڈیوٹی لگا دی ہے اگر ان کے بجائے کسی اور کو مقرر
کرتا ہو تو مجال انکار نہ تھی نبی یا امام تو بجائے خّد اگر عام انسانوں میں سے
کسی ایک کو مامور کرتا تو وہ بھی یہ کام کرتا رہتا ۔کیونکہ تکوین میں اختیار کو
دخل نہیں ۔لیکن کیا محمد وآل محمد علیہم السلام کو اس نے ان کاموں پر مامور کیا ہے
؟تو کتب سیرواحادیث سے اور قرآن سے اس کا جواب نفی میں ہے ۔بہر حال خدائے قدوس کا
اس نظام اتم واکمل میں کوئی شریک نہیں نہ کوئی نبی نہ ولی اور نہ ملک بلکہ سب اس
کے عباد مکرین اوراس کے عبادت گذار بندے ہیں ۔پس وہ اپنی ذات و افعال میں لاشریک
ہے ۔