تعدا د انبیا علہیم السلام
تعداد انبئا کے متعلق اس قدر
عقیدہ رکھنا کافی ہے کہ وہ بنا پر مشہور ایک لاکھ چوبیس ہزار تھے اول حضرت آدم
علیہ السلام اور سب سے آخر حضرت محمد مصطفی ﷺ ان میں سے تھوڑے رسول تھے اور اکثر
صرف نبی تھے بعض انبئا کی نبو ت بالکل محدود تھی اور بعض قوم و قبیلہ کے نبی تھے
چنانچہ کتب قصص میں بنی اسرائیل کے بہت سےانبیا کا ذکر ملتا ہے جو گوشہ تنہائی میں
عبادت پروردگار بجالاتے تھے گویا وہ اپنی ذات کے لئے ہی تھے یا اپنے خاندان کے لئے
تھے قرآن مجید میں بہت کم نبیوں اور رسولوں کا ذکر آیا ہے مذکورہ تعداد احادیث کی رو سے بیان کی جاتی
ہے اسی طرح پانچ نبیوں کو اولو العزم کہا جاتا ہے ان کے نام نامی یہ ہیں ۔
حضرت نوح حضرت ابراہیم حضرت موسی حضرت عیسی اور حضرت محمد مصطفیﷺ
حضر ت نوح علیہ السلام کے
بعد حضرت ابراہیم تک جس قدر نبی درمیان
میں مبعوث ہوئے وہ حضرت نوح کی شریعت کے عامل و مبلغ تھے سوائے کسی معمولی جزوی
فرق کے اور کوئی فرق نہیں تھا۔پھر حضرت ابراہیم سے حضرت موسی تک تمام نبی شریعت
ابراہیمی پر رہے اور ملت ابراہیمی میں چند ایسی باتیں ہیں جو کسی شریعت میں منسوخ
نہ ہو سکیں اور حضرت موسی سے لے کر حضرت عیسی تک لوگ حضرت موسی کی شریعت پر رہے
اور حضرت عیسی کے بعد عیسوی دین رہا حتی کہ حضور رسالت مآب مبعوث ہوئے تو سابق
دین منسوخ ہو گئے اور اسلام ہی قابل قبول دین رہا ہما را عقیدہ یہ ہے کہ یہ سارے
نبی پر حق تھے اور خدا وند کریم کے منشا ءکے مطابق اسلام کی ہی تبلیغ فرماتے تھے اور
ہر نبی کا اپنے زمانہ کے لوگوں سے اشرف و
افضل ہوناضروری ہے نیز سب کے سب صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے معصوم تھے ہم ان تمام
نبیوں سے حضرت رسالت مآب ﷺ کو افضل سمجھتے ہیں جس طرح ملائکہ سے تمام انبیا کو
افضل جانتے ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ کوئی زمانہ حجت خدا سے خالی نہیں ہو سکتا
حتی کہ زمانہ فترت بھی انبیا سے خالی نہ تھا اور اس زمانہ میں جو نبی تھے و ہ حضرت عیسی کی شریعت کے مروج تھے اور اہل
فسا د کے خوف سے تقیہ کی زندگی بسر کرتے رہے شیخ صدوق عقائد میں تحریر فرماتے ہیں
کہ انبیا کے متعلق ہمارا اعتقاد یہ ہےکہ ایک لاکھ چوبیس ہزار تھے اور ان کے اوصیا
بھی ایک لاکھ چوبیس ہزار تھے اور ہر نبی کا ایک ایک وصی تھا یہاں بلا فضل وصی مراد
ہے ورنہ ہمارےنبی کےاوصیا کی تعداد بارہ ہے او ر وصی بلافضل صرف امیر المومنین علی
علیہ السلام ہیں ۔