خداوند کریم نےاپنے کلام بلاغت نظام میں ارشاد فرمایا کہ فرما دیجئے کہ ہر شئیی اللہ ہی کی طرف سے ہے اور فرمان نبوی بھی منقول ہے کہ ہر شئیی قضا و قدرسے وقوع پذیر ہوتی ہے پس شکوک و شبہات پیدا ہوئے اور عقول کی حیرت و ضلالت اور اقدام کی لغزشیں سب اسی کی بدولت رونما ہوئیں لیکن یہ سب کچھ اقدار کو ینہ سے غفلت کا نتیجہ ہیں اور اس بات سے چشم پوشی کا ثمرہ ہیں کہ ہر سبب اپنے مسبب سے اور ہر معلول اپنی علت سے مربوط ہے اورناموس موجودات کی بقا اسی سبب و مسبب اورعلت و معلول کےسلسلہ کی مرہون منت ہے پس صاحبان ادراک و شعور اور ارباب ارادہ وا ختیار کی قدرت سے صادر ہونے والا ہر فعل درحقیقت اسی ذات مقدسہ کی طر ف مستند اور اسی کا معلول ہے جس نے اس کو ارادہ و اختیار ادراک و شعور اور قدرت و طاقت عطا فرمائی ہے اگرچہ ظاہری طور پر اس فعل کی نسبت علت قرینہ کی طرف ہو گی لیکن علت اولی کی طرف نسبت بھی حق اور واقع ہے کیونکہ قوت و اختیار کی علت وہی ہے لہذا اس کو فعل میں موثر ماننا بھی درست ہے پس خدا نہ تو بندے کے فعل سے بالکل سے الگ ہے جس طرح تفویض کلی والے کہتے ہیں اور نہ بالکل وہی فاعل ہے جس طرح جبر والے کہتے ہین گویا فعل کا وقوع پذیر ہونا علی الترتیب دو فاعلوں کے اثر سے ہے ایک وہ فاعل ہے جس سے وہ فعل صادر ہوا اور دوسرا وہ بھی فاعل ہے جس کی طرف اشارہ ہے چنانچہ فرمایا لا جبر ولا تفویض بل امر بین الا مرین کہ نہ جبر کا عقیدہ درست ہے کہ سب کچھ خدا کرتا ہے اور بندہ مجبور پر محض ہے اور نہ عقیدہ درست ہے کہ بندہ کے فعل میں خدا کا دخل بالکل نہیں جیسے کہ اہل تفویض کہتے ہیں بالکل ان دونو کے درمیان عقیدہ رکھنا درست ہے کہ فاعل قریب بندہ ہے اور فاعل کی قدرت ارادہ اور اختیار چونکہ اللہ کی جانب سے ہے لہذا وہ اس کا فاعل بعید ہے پس انسان کا فعل حسن و قبح کی صفت سے متصف ہو گا اور عدل پروردگار کے ماتحت فعل حسن پر جزا اور فعل قبیح پر سزا ملے گی عدل کی بحث اپنی تمام فرعی نزاعات کے ساتھ ختم ہو گئی او ر ہم اپنے مقصد کو بڑے مختصر انداز سے واضح کرتےہیں کامیاب ہوئے والحمدللہ رب العالمین۔
تفویض کلی کا بطلان
2 min read