اس میں شک نہیں کہ محمد وآل محمد علیہم السلام خدا
کی مصلحت کے سامنے سراپا تسلیم تھے اور اسکی رضا کے لے ان کو ایسا کرناچاہیے تھا
پس انہوں نے راہ خدا میں جہاد بھی کیا اور مصائب بھی برداشت کئے جس طرح
کہ باہمت انسانوں کی شان ہے اوران کی معیت میں ان کے غلام بھی ان ہی شدائد میں ان
کےنقش قدم پر چلے جو سب کے سب رضا پرودگار کے تابع تھے پس وہ اللہ کے
خاص بندے تھے اورانہوں نے اس کے دینکی پیش بہا خدمات انجام دی اور دشمنان دین سے
اپنی زندگی بھر جہاد کیا اور اعلائے کلمتہ اللہ کے لیے اور ناموس اسلام کی حفاظت
کے لیے باطل طاقتوں سے سے ٹکراگئے ۔حتی کہ اپنی جان ومال وناموس تک کوقربان کردیا
اور دین خدا کی لاج[i]
رکھ لی ۔وہ حضرت آدم اور حضرت حوا کی اولاد میں سے تھے اور ان کی اولاد ان کی صلب
سے ہے اوراللہ کی سب مخلوق سے افضل و برتر مخلوق تھے لیکن اس کی توحید کے علمبردار
تھے اورعقیدہ توحید جس طرح انہوں نے سمجھایا اس طرح کوئی
بھی نہ سمجھا سکا ۔ہم ان کا حق ادا کرسکنے سے قاصر ہیں ۔
میں نےاپنی وسعت بھر مسئلہ
توحید کو واضح کیا ہے اگرمیرے بیان کا مطالعہ کرنے والوں نے علیحدہ ہوکر اپنے عقل
سلیم کی قندیل کی روشنی میں افکار انظار صحیہ سے تائید لیتے ہوئے طالب دین بن کر
منصفانہ طور پر غور کیا تو بعید نہیں خدا ان کواور ہم کو ایک صراط مستقیم پر جمع
کر دے ۔
[i] چونکہ
وہ خالق و مخلوق کے درمیان وسیلہ ہیں لہذا ہر دو پہلوؤں کے لحاظ سے ہر دو طرف
وابستہ ہیں نورانی پہلو کے اعتبار سے وہ خدا سے وابستہ ہیں اور جسمانی و بشری پہلو
کے لحاظ سے ہم سے وابستہ ہیں پس ان کی پیدائش بھی ہر دو پہلوؤں کے لحاظ سے الگ الگ
ہے نورانی پہلو کے اعتبار سے وہ اولی مخلوق ہیں جب کوئی نہ تھا وہ تھے اور اس
مرحلہ وہ صلب و رحم کے محتاج نہیں بلکہ ان کی پیدائش صرف امر کن سے ہے لیکن بشری
پہلو کے لحاظ سے وہ حضرت آدم و حوا کی اولاد میں سے ہیں ان کی مائیں بھی ہیں اور
باپ بھی ہیں لیکن ان کی ماؤں کا سلسلہ حضرت حوا تک پاک و پاکیزہ تھا کہ کبھی آلائش
شرک و کفر سے ان کا دامن آلودہ نہ ہوا اور اسی طرح ان کے آبائے طاہرین علیہ السلام
بھی حضرت آدم علیہ السلام پاک و پاکیزہ تھے علاوہ ازی ان کی پیدائش کی خصوصیات الگ
ہیں وہ پاک و پاکیزہ ناف بریدہ اور ختنہ شدہ پیدا ہوتے ہیں اور پیدا ہوتے ہی کلمہ
شہادتیں زبان پر جاری کرتے ہیں چنانچہ اس کی تفصیل ہم نے تفسیر انوار النجف ص 10 ص
70 پر ذکر ہے لہذا جو شخص یہ کہے کہ ان کی ولادت کی تمام کیفیات عام انسانوں کی
طرح ہیں یا علماء کی طرف ایسی باتیں منسوب کرے وہ کذاب و مفتری ہے اسی بناء پر یہ
کہنا بھی بجا ہے کہ مقام نور میں ان کی نوع تمام انواع سے لگ ہے لہذا وہ نوع مفرد
ہیں اور مقام جسم میں نوع انسانی کے اکمل افراد ہیں نہ مقام نور میں کوئی نوری ان
جیسا ہے اور نہ مقام جسم میں کوئی انسان و بشر ان کی مثل ہے عام انسان تو بجائے
خود حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسٰی علیہ السلام تک تمام انبیاء بھی ان
جیسے نہیں ہیں پس نہ وہ خدا کی مثل ہیں کیونکہ خدا خالق اور وہ مخلوق اول ہیں اور
نہ عام انسان کی مثل ہیں کیونکہ عام انسان محض خاکی ہیں اور وہ نوری انسان ہیں
لہذا اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی مثال آپ ہیں۔