التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

حضرت ابو طالب کا ایمان

8 min read

ہمارا اعتقاد ہے کہ حضر ابو طالب اور ان کی زوجہ جنا ب فاطمہ بنت اسد مومن تھے اور آئمہ طاہرین کا سلسلہ آبا ءبھی ہمیشہ مسلمان رہا کیا اہل تاریخ و سیر کا اتفاق ہے کہ مکہ میں حضور کا حضرت ابو طالب کے علاوہ کوئی ناصر و مددگار ان سے بڑھ کرنہ تھا بلکہ مکہ میں جس قدر لوگوں نے اسلام کا شرف حاصل کیا وہ سب حضرت ابو طالب کی نصرت کے صدقہ میں تھا ورنہ مشرکین مکہ کی اکھڑ مزاجی کے پیش نظر کوئی بھی حلقہ اسلام میں داخل نہ ہوسکتا اگر یہ نہ ہوتے طبری و سیرت حلبیہ و دیگر کتب سیرو تاریخ میں ہے کہ دعوت عشیرہ کے موقعہ پر آپ نے کوہ صفا پر کھڑے ہو کر آواز دی تو لوگ اکٹھے ہو گئے آپ نے فرمایا اگر میں کہوں کہ پہاڑ کے دامن سے کوئی دشمن کا لشکر آرہا ہے تو مان لو گئے ؟ کہنے لگے جی ہاں کیونکہ ہم نے آپ کو کبھی جھوٹا نہیں پایا آپ نے فرمایا قیامت کے عذاب سے ڈرو فورا ابو لہب نے بات کاٹ دی اور چند باتیں کہہ کرلوگوں کو منتشر کردیاپھر آپ نے دوبارہ دعوت دی اور خطبہ توحید کے بعد اپنی رسالت کا اعلان فرمایا تو ابو طالب نے کہا ہم آپ کے مددگار اور نصحیت کو قبول کر نے والے ہیں اور آپ کی تصدیق کرنے والے ہیں یہ سب خاندان آپ کا ہے اور میں اس  کا ایک فرد ہوں لیکن سب کی بہ نسبت آپ کی بات کو جلدی قبول کرنے والا ہوں بے شک آپکو جو حکم ہوا ہے اسے پورا کیجئے خدا کی قسم میں آپ کا جانثار ہوں گا اور آپ کی پوری پور ی حفاظت کروں گا ہاں بے شک میرا جی حضرت عبدالمطلب کے دین کو چھوڑنا قطعا گوارا نہیں کرتا گویا جس طرح وہ خدا پرست اور موحد تھے ہم بھی خدا پرست اور موحد ہیں نہ ہم مشرک ہیں اور نہ مشرکوں کے ساتھی ہیں پس آپ جو کچھ فرماتے ہیں درست اوریحا ہے ابن اثیر نے لکھا ہے کہ ابو لہب یہ باتیں سن کر سٹ پٹا گیا لیکن حضرت ابو طالب نے فرمایا خدا کی قسم جب تک ہماری جان میں جان ہے ہم ان کی ضرور حفاظت کریں گے اور سیرت حلبیہ میں ہے کہ یہ دعوت ہی حضرت ابو طالب کے گھر میں منعقد ہوئی تھی نیز طبری میں ابن الاعرابی سے یہ لفظ بھی منقول ہیں کہ جب ابو لہب نے شرارت کا ارادہ کیا تو ابو طالب نے جھڑک کر کہا اور یک چشم خاموش تجھے ان سے کیا واسطہ؟ پھر عوام سے فرمایا خبر دار کوئی نہ اٹھنے پائے چنانچہ مرعوب ہو کر سب بیٹھ گئے تو حضرت ابو طالب نے کہا میرے سردار جو طبع چاہے ارشاد فرمائیے اور اپنے پروردگار کی رسالت پہنچائیے کیونکہ آپ صادق و مصدق ہیں اور اس قسم کی  روایات متواترہ موجود ہیں جن کا ایک ایک لفظ حضرت ابو طالب کے ایمان کاسچا گواہ ہے خدائے قدوس کی قسم اگر حضرت ابو طالب کی ہمت نہ ہوتی اور ان کا رعب و جلال نیزحضور کے مشن ہے ہم آہنگی نہ ہوتی تو اسلام کی آواز کوپہلے دن سے دبا دیا جاتاتھا اور جن لوگوں کے سابق الایمان ہونے کے بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں ان کو تو مکہ کی زمین میں پوچھنے والا بھی کوئی نہ تھاجن لوگوں کی جنگوں اور شجاعتوں کے بڑے بڑے تذکرے اور بڑے طمطراق سے قصیدہ خوانیاں ہوتی ہیں کہ وہ نہ ہوتے تو آذان بآواز بلند نہ ہوسکتی خدا کی قسم تاریخ ان کو نسیا منسیا سمجھتی ہے اور ابو طالب کی نصرف و ہمت ہی اسلام لانے والوں کی پشت پناہ تھی ورنہ جب ان کا انتقال ہواتو اسی سال ہی سب گروہوں نے مل کر راتوں رات آپ کے قتل کی تجویز ٹھان لی اور شب تار میں آ پ گھر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے بڑے دعوے کرنے والوں کو کسی نے پوچھا کہ وہ کس باغ کی مولی ہیں ورنہ ہجرت کی نوبت کے ظاہری اسباب اس قدر افسوسناک اور خطر ناک نہ بنتے مجھے اس بات میں طول کرنے کی ضرورت نہیں جن لوگوں نے حضور کے ماں باپ کو کافرکہہ دیا ان کے لئے حضرت علی کے والدین کو کافر کہنا کوئی مشکل امر نہیں آخر میں میں بعض اہل سنت کے علماءکے چند اقوال پیش کرتا ہو ں جو کسی حد تک انصاف و عدل کی ناموس کو سمجھتے تھے احمد بن حسین حنفی نے شرح شہاب الاخبار میں لکھاہے علی ما نقل عنہ ان بعض ابی طالب کفر تحقیق ابو طالب سے بغض رکھنا کفر ہے اسی طرح ابن اثیر سے جامع الاصول میں منقول ہے کہ جناب رسالتمآب کے چچوں میں سے صرف تین ہی مشرف یا سلام ہوئے تھے حضرت عباس حضرت حمزہ اور حضرت ابو طالب بنا بر قول اہلبیت علہیم السلام بروایت عکرمہ ابن عباس سے منقول ہے کہ مجھے اپنے باپ نے خبر دی ان ابا طالب شھد عند الموت ان لاالہ الا اللہ وان محمد ا رسول اللہ یعنی حضرت ابو طالب نے موت کے وقت کلمہ شہادتیں زبان پر جاری کر دیا تھا ضیا ءالعالمین

حضرت امام علی زین العابدین علیہ السلام سے حضرت ابو طالب کے ایمان کے متعلق پوچھا گیا توآپ نے فرمایا بفرنان خد اکوئی مسلمان عورت کافر کے نکاح میں باقی نہیں رہ سکتی اور حضرت فاطمہ بنت اسد جو عورتوں میں سے پہلی اظہار اسلام کرنے والی تھیں ان کا حضرت ابو طالب کے نکاح میں رہنا حضرت ابو طالب کے ایمان کی دلیل ہے ورنہ حضور ؐ قطعا نہ برداشت کرتے حضرت امام محمد باقر ؑ سے مروی ہے آپ نے فرمایا تمام مخلوق کا ایمان ترازو کے ایک پلڑے میں ہو اور حضرت ابو طالب کا دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو حضرت ابو طالب کا پلڑا جھک جائے گا روایت میں تما م مخلوق سے مراد غیر معصوم مخلوق ہے یعنی انبیا و آئمہ کے علاوہ باقی تمام لوگوں کے ایمان سے حضرت ابو طالب کاایما ن زیاد ہ وزنی ہے بہرکیف اس بارہ میں زیادہ روایات نقل کرنے کی ضرورت نہیں آپ کی نصرت رسول آپ کے اقوال آپ کے اشعار اور آپ کی وصتیں سب بالتواتر آپ کے ایمان کامل کی شاہد ہیں اور آئمہ کی روایات سے ان کا معصوم ہونا بھی ثابت ہوتاہے چنانچہ شیخ صدوق کی گزشتہ مرسل روایت میں ہے کہ حضرت عبدالمطلب حجت خدا تھے اورحضرت ابو طالب ان کے وصی تھے اور حجت خدا اور اوصیا کا معصوم ہونا لازمی ہے جس طرح ہم پہلے ثابت کر چکے ہین بہر کیف سیر کے مطالعہ سے حضرت ابو طالب کے ایمان اور اس کی پختگی کا یقین حاصل ہوتاہے اور اہل بیت اطہار کا آپ کے مومن کامل ہونے پر اتفاق ہے بلکہ دور اول ہیں ان کے ایمان میں کسی کو شک تک نہیں تھا دیکھئے حضر ت امیر علیہ السلام کی امیر شام معاویہ کے ساتھ کافی خط و کتابت رہی اور حضرت علی نے اپنے مکاتیب میں اس کو سخت سست الفاظ بھی کہے لیکن معاویہ کبھی جرات نہ کرسکا کہ حضر ت علی کو باپ کے کفر کا طعنہ دے ورنہ لوگوں کو ورغلا نے اور ان کو دھوکا میں ڈالنے کا ایک بڑ ا حربہ اس کے ہاتھ لگ جاتا اور ببانگ وہل اعلان کرتا  کہ میں مسلمان باپ کا بیٹا ہوں اور حضرت علی معاذ اللہ کافر باپ کا بیٹا ہے پس حضر ت علی کی سخت کلامی کے باوجود معاویہ کا جرات کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ دور اول میں حضرت ابو طالب کے ایمان کے متعلق قطعا کسی کو شک نہ تھا نہ دوستوں کو اور دشمنوں کو لیکن سادات کی مظلومیت کی آڑ میں جب بنی عباس نے بنی امیہ سے سلطنت چھین لیا اور خود سلطنت کے تخت پر ممتکن ہوئے تو اولاد حضرت علی کو عوام کی نظروں میں سبک کرنے کے لئے انہوں نے ایک  سیاسی چا ل چلی اور حضرت ابو طالب کے ایمان کو انہوں نے اپنے اعتراضات کا نشانہ بنایا تاکہ سادات سے اپنی برتری کے ثبوت میں وہ کہہ سکیں کہ ہم رسول ؐ کے مسلمان چچا کی اولاد ہیں اور اولاد علی ؑ رسولؐ کے کافر چچا کی اولاد تھے پس اس دھوکا سے لوگوں کو اپنے دام تزویز میں پھنسا لینا اور ان کے لئے آسان تھا اور اسلامی مذاہب کے علماءوآئمہ اور مورخ ومحدث سب چونکہ اسی پر فتن دور کی پیداوار ہیں پس انہوں نے سلاطین وقت کے نظریہ کو خوب اپنایا اور اسے فروغ دے کر آل محمدؑ سے دشمنی کی آتش غضب کو اسی کلمہ سے خوب ٹھنڈا کیا کہ حضر ت ابو طالب معاذ اللہ کافر تھے بہر کیف تاریخ اسلام حضرت ابو طالب ؑ کے آثار کو نہیں مٹا سکتی او رمنصف مزاج لوگ آخر حقیقت کا سراغ لگالیا کرتےہیں سورج پر گرد پھینکنے سے اپنا منہ وسرہی خاک آلود ہوتاہے بہر کیف شیعہ کا اجماع ہے اور یہی عقیدہ ہے کہ حضرت ابو طالب پکے مسلمان اور وفادار ردسول تھے بلکہ محسن اسلام تھے اور بعض روایات سےتویہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کے آخری وصی تھے اور تبرکات انبیئا انہی کے ذریعہ سے حضور ؐ تک پہنچے تھے چنانچہ بروایت کافی حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سےبھی اس قسم کی روایت منقول ہے اور اس سے یہ بھی اندازہ ہوتاہے کہ حضور رسالتمآب کے جملہ آبائے طاہرین ؑ منقول ہے اور اس سے یہ بھی اندازہ ہوتاہے کہ حضور رسالتمآب کے جملہ آبائے طاہرینؑ یکے بعد دیگرے حضر ت ابراہیم علیہ السلام کے اوصیاءمیں سے تھے واللہ اعلم ہم نے ایمان حضرت ابو طالب کے متعلق مفصل بحث تفسیر انوارلنجف جلد 5 ص 201 تا ص 212 درج کی ہے جو اکثر اسامہ امینی کی کتاب الغدیر جلد نمبر 7 سے ماخوذ ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں