ہمارا عقیدہ ہے کہ جس طرح عہدہ نبوت کےلئے خدا خود اپنے خصوص بندوں کو نامزد فرمایاہے اسی طرح امامت کے لئے بھی اسی کانامزد کردہ ہی ہوناچائیے کیونکہ امامت کا عہدہ رسالت ونبوت کی طرح ولایت مطلقہ کا عہدہ ہے اور اس کو سوائے معصومکے دوسرا کوئی نہیں سنبھال سکتااور باتفاق جمیع مسلمانان عالم حضرت رسالتمآب چونکہ تمام سابق انبیاء سے افضل واشرف تھے اور عالمین کیلئے نزیر تھے ان کی جگہ جو ان کا قائم مقام ہوگا وہ بھی عالمین کےلئے نزیر ہوگا آپ قرآن مجید کے مبلغ ومعلم تھے لہذاآپ کا قائم مقام بھی وہی ہوسکتاہے جو قرآن کا مبلغ ومعلم بننے کی اہلیت رکھتاہوں
دیکھئے جناب رسالتمآب کے پاس دوقسم کا اقتدار تھا ایک دنیاوی دوسرا ذہنی دنیاوی لحاظ
سے آپ سلطان وقت تھے لہذاسیاست مدینہ
اور اس کی تدبیر آپ کے ہاتھ میں تھی اور دینی لحاظ سے آپ رسول اعظم تھے
لہزا روحانی پیشوا تھے اور لوگوں کے لئے بارگاہ ربوبیت تک قرب کا وسیلہ تھے پس آپ کی مسند صرف دنیاوی نہیں تھی تاکہ جو بھی سیاست مدینہ کا اہل ہووہی
اس پر بیٹھ جائے بلکہ یہاں تو ایسے
شخس کی ضرورت تھی جو علوم قرآنیہ میں بھی
اس کا قائم مقام صحیح معنوں میں بن سکتا ہو کیونکہ آپ کینبوت کو اولی
وذاتی حیثیت حاصل تھی اور دنیاوی سیاست
ثانوی حیثیت سے تھی اوریہ بعید ازعقل ہے
کہ قائمقام میں ثانوی حیثیت کو ملحوظ
رکھاجائے اور ذاتی حیثیت کو نظرانداز
کیاجائے پس اگر صحابہ میں نظر دوڑائی جائے تو سوائے علیؑ کے کوئی بھی ایسافرد نظر نہیں آتا جو علوم
نبویہ میں ان کا صحیح قائمقام بن سکتاہو
کیونکہ جب ہم علمی حیثیت سے جائزہ لیں
گے اور کتب فریقین سے بلا تعصب صحابہ
کی صحیح پوزیشن معلوم کرنے کی کوشش کریں
گے تو خدا کی قسم ہر فریق کی کتابون میں علم کی بلند منزل
پر علیؑ کا قدم ہی نظر آئے گا حتی کہ ہم
حضرت عمر کی زبانی بھی علمی مشکلات
میں پھنسنے کے بعد اور علیؑ سے مشکل کشائی کی بھیک مانگنے کے کے بعد یہی
الفاظ سنیں گے لولاعلی لھلک عمر اور جناب
رسالتمآبؐ سے بھی سنیں گے اقضاکم علی چنانچہ حضرت ابن عباس حبرِ امت کا قول ہے ماعلمی وعلم اصحاب محمد فی
علم علی الاکقطرۃ فی سبعۃ البحر یعنی میرا اور محمدؐ کے تمام صحابہ کا علم علیؑ
کے علم کے مقابلہ میں ایسا ہے جیسے ایک
قطرۃ آب سات سمندروں کے مقابلہ میں
ویسے عقلی لحاظ سے ڈاکٹر کا صحیح قائمقام ڈاکٹر ہی ہو سکتاہے وکیل کا صحیح قائمقام وکیل
ہی ہوسکتاہے ورنہ اس کیجگہ خالی
رہے گی پھر ان میں بھی اگر کئی قسمیں ہوں
تو ہر قسم میں قائمقامی اسی نوعیت سے ہوگی
مثلا آنکھوں کے ڈاکٹر کا قائم مقام آنکھوں
کا ڈاکٹر ہی ہوگا فوجداری وکیل کا
مقام فوجداری وکیل ہی ہوگا وعلیٰ ھذالقیاس
پس ان اصولوں کی بناء
پر حضرت رسالتمآبؐ کی حیثیت اگر
نبوت کی ہے تو ان کا قائمقام وہی وہسکتاہے جو عہدہ نبوت کو سنبھال سکتا ہو
یہ الگ بات ہے کہ سلسلہ نبوت کے خاتمہ کی
وجہ سے اسے نبی نہ کہاجاسکتے گا پس عقلا بھی عہدہ خلافت کا حقدار وہی ہوگا جو نبی کے
اوصاف رکھتاہو اور نصا بھی ایسا ہی ہونا چائیے
بنابریں اجماع امت سے ایسے شخص کا
تعین بہت مشکل ہے کیونکہ اولا تو اہل کی شناخت بہت مشکل ہے کیونکہ کوئی کسی کے
ظاہری اعمال وافعال سے تو واقف ہوسکتاہے
لیکن اس کے باطنی حالات کا پتہ صرف خالق علیم کو ہی ہوسکتاہے پس وہی اس کو متعین کرسکتاہے ثانیا اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ فلاں اہل ہے تو
اہلکا انتخاب کار دارد کا مصداق ہے کیونکہ
جذبات وخواہشات کےعلائق بہت کم لوگوں کو راہ راست
پرچلنے دیتے ہیں چنانچہ ہم نے بڑے بڑوں کو ڈگمگاتے
دیکھا ہے کہ صحیح امیدوار کو جاننے کے باوجود اس کو پیچھے
ہٹانے کے درپے ہوتے ہیں لہذا نبی یاقائمقام نبی کا حق انتخاب صرف خالق کوہی
ہونا چائیے اسی بناء پر شیعہ اجماعی خلافت کے قائل نہیں پس نبی علیہ السلام کی جگہ منبر خلافت پر وہی جلوہ گر ہوگا جو
نبی کی طرح تمام امت سے افضل ہو اور تمام صفاتکمالات میں پوری امت
سے اکمل ہو اور واقعی طور پر چونکہ خدا ہی حقیقت کوجانتاہے لہذا خلافت کا منصوص من اللہ ہونا ضروری
ہے اس مقصد کی پوری وضاحت ہم نے اپنی نوتصنیف کتاب اسلامی سیاست میں کی ہے