التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

ساتواں باب - امامت کا بیان - امام کا منصوض من اللہ ہونا ضروری ہے

3 min read

ہمارا عقیدہ  ہے کہ جس طرح عہدہ نبوت کےلئے  خدا خود اپنے خصوص بندوں کو نامزد فرمایاہے  اسی طرح امامت کے لئے  بھی اسی کانامزد کردہ ہی  ہوناچائیے  کیونکہ امامت کا عہدہ رسالت ونبوت کی طرح ولایت مطلقہ  کا عہدہ ہے  اور اس کو سوائے معصومکے دوسرا کوئی نہیں سنبھال سکتااور باتفاق جمیع  مسلمانان عالم  حضرت رسالتمآب  چونکہ تمام سابق انبیاء سے افضل واشرف تھے اور عالمین  کیلئے  نزیر تھے ان کی جگہ جو ان کا قائم مقام ہوگا  وہ بھی عالمین کےلئے نزیر  ہوگا آپ قرآن مجید کے مبلغ ومعلم تھے  لہذاآپ کا قائم مقام بھی وہی ہوسکتاہے  جو قرآن کا مبلغ ومعلم بننے کی اہلیت رکھتاہوں

دیکھئے  جناب رسالتمآب  کے پاس دوقسم کا اقتدار تھا  ایک دنیاوی دوسرا ذہنی  دنیاوی لحاظ  سے آپ سلطان وقت تھے لہذاسیاست مدینہ  اور اس کی تدبیر آپ  کے ہاتھ  میں تھی اور دینی لحاظ سے آپ رسول اعظم تھے لہزا روحانی پیشوا تھے اور لوگوں کے لئے بارگاہ ربوبیت تک قرب کا وسیلہ تھے  پس آپ کی مسند صرف دنیاوی نہیں تھی  تاکہ جو بھی سیاست مدینہ  کا اہل ہووہی  اس پر بیٹھ جائے  بلکہ یہاں تو ایسے شخس کی ضرورت تھی جو علوم قرآنیہ  میں بھی اس کا قائم مقام  صحیح  معنوں میں بن سکتا ہو کیونکہ آپ کینبوت کو اولی وذاتی حیثیت حاصل تھی  اور دنیاوی سیاست ثانوی حیثیت سے تھی  اوریہ بعید ازعقل ہے کہ قائمقام  میں ثانوی حیثیت کو ملحوظ رکھاجائے اور ذاتی حیثیت کو نظرانداز  کیاجائے  پس اگر صحابہ  میں نظر دوڑائی جائے تو سوائے علیؑ  کے کوئی بھی ایسافرد نظر نہیں آتا جو علوم نبویہ میں ان کا صحیح قائمقام بن سکتاہو

کیونکہ جب ہم علمی حیثیت  سے جائزہ لیں  گے اور کتب فریقین سے بلا تعصب صحابہ  کی صحیح  پوزیشن معلوم کرنے  کی کوشش کریں  گے تو خدا کی قسم ہر فریق کی کتابون میں علم  کی بلند منزل  پر علیؑ کا قدم ہی نظر آئے گا حتی کہ ہم  حضرت عمر کی زبانی بھی علمی مشکلات  میں پھنسنے  کے بعد اور علیؑ  سے مشکل کشائی کی بھیک مانگنے کے کے بعد یہی الفاظ سنیں گے  لولاعلی لھلک عمر اور جناب رسالتمآبؐ سے بھی سنیں گے اقضاکم علی چنانچہ حضرت ابن عباس  حبرِ امت کا قول ہے ماعلمی وعلم اصحاب محمد فی علم  علی الاکقطرۃ فی سبعۃ البحر  یعنی میرا اور محمدؐ کے تمام صحابہ کا علم علیؑ کے علم کے مقابلہ میں ایسا  ہے جیسے ایک قطرۃ آب سات سمندروں کے مقابلہ میں

ویسے  عقلی لحاظ سے ڈاکٹر  کا صحیح قائمقام ڈاکٹر ہی ہو سکتاہے  وکیل کا صحیح قائمقام  وکیل  ہی  ہوسکتاہے ورنہ اس کیجگہ خالی رہے گی پھر ان میں بھی اگر کئی قسمیں  ہوں تو ہر قسم میں قائمقامی  اسی نوعیت سے ہوگی مثلا آنکھوں کے ڈاکٹر  کا قائم مقام  آنکھوں  کا ڈاکٹر ہی ہوگا فوجداری  وکیل کا مقام  فوجداری وکیل  ہی ہوگا  وعلیٰ ھذالقیاس  

پس ان اصولوں  کی بناء  پر حضرت رسالتمآبؐ  کی حیثیت اگر نبوت کی  ہے تو ان کا قائمقام  وہی وہسکتاہے جو عہدہ نبوت کو سنبھال سکتا ہو یہ الگ بات ہے کہ سلسلہ نبوت  کے خاتمہ کی وجہ سے اسے نبی  نہ کہاجاسکتے گا پس عقلا  بھی عہدہ خلافت کا حقدار وہی ہوگا جو نبی کے اوصاف رکھتاہو اور نصا بھی ایسا ہی ہونا چائیے  بنابریں اجماع امت  سے ایسے شخص کا تعین بہت مشکل ہے کیونکہ اولا تو اہل کی شناخت بہت مشکل ہے کیونکہ کوئی کسی کے ظاہری اعمال  وافعال سے تو واقف ہوسکتاہے لیکن اس کے باطنی حالات کا پتہ صرف خالق علیم کو ہی ہوسکتاہے  پس وہی اس کو متعین کرسکتاہے ثانیا  اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ فلاں اہل ہے تو اہلکا انتخاب کار دارد  کا مصداق ہے کیونکہ جذبات وخواہشات کےعلائق بہت کم لوگوں کو راہ راست  پرچلنے دیتے  ہیں چنانچہ  ہم نے بڑے بڑوں  کو ڈگمگاتے  دیکھا  ہے کہ صحیح  امیدوار کو جاننے کے باوجود  اس کو پیچھے  ہٹانے  کے درپے ہوتے ہیں  لہذا نبی یاقائمقام  نبی کا حق انتخاب  صرف خالق کوہی  ہونا چائیے  اسی بناء  پر شیعہ اجماعی خلافت کے قائل نہیں  پس نبی علیہ السلام  کی جگہ منبر خلافت پر وہی جلوہ گر ہوگا جو نبی  کی طرح تمام امت  سے افضل ہو اور تمام صفاتکمالات میں پوری امت سے اکمل ہو اور واقعی طور پر چونکہ خدا ہی حقیقت کوجانتاہے  لہذا خلافت کا منصوص من اللہ ہونا ضروری ہے  اس مقصد کی پوری وضاحت ہم  نے اپنی نوتصنیف کتاب اسلامی سیاست میں کی ہے

ایک تبصرہ شائع کریں