سارے بیان سے آپ اندازہ کر یں گے اور اب بھی ببانگ دہل ہیں اعلان کرتاہوں کہ علی کی نصرت و امداد کا انکار دینی قدروں کا انکار ہے علی دین کا ناصر قرآن کا ناصر شریعت کا ناصر اورناموس اسلام کا ناصر ہے ہم نے دنیا میں قدم رکھا تو محمد وآل محمد کے وجود کی بدولت ہمیں دین و اسلام ملا توانہی کی طفیل ہم عالم برزخ میں آرام چاہتے ہیں تو انہی کے صدقہ میں ہم نے پل صراط سے گزرنا ہے تو انہی کی ولا ءسے اسی طرح کو ثر لواءالحمد اور جنت انہی کے صدقہ میں نیز ہماری دعائیں مستجاب ہوتی ہیں توانہیں کے وسیلہ سے ہمیں رزق و اولاد ملتی ہے تو انہیں کے صدقہ سے غرضیکہ جو کچھ ملنا ہے یا ملے گا یا مل چکا ہے و ہ سب انہی کے صدقہ سے ہے نقط فرق یہ ہے کہ ہم کہتے ہیں دینے والا اللہ ہے اور مدد کرنے والے یہ ہیں ہم اللہ کو معطل نہیں مانتے پس اس نظریہ کے ماتحت یا علی مدد یا عباس ادرکنی یا حسین اور یارسول اللہ کہنا سب جائز اور درست ہےلیکن اگر یہ کہا جائے کہ اللہ بالکل معطل ہے یا یہ اللہ کے ساتھ شریک ہیں یایہ کہ اللہ ان کا محتاج ہے اور بغیر ان کے کائی کام نہیں کر سکتا یایہ کہ اللہ ان کی بات ماننے پر مجبور ہے یا یہ کہ اللہ نے سب کچھ ان کے حوالہ کر دیا اور ان عقائد سے آئمہ طاہرین خودبری اوربیزار میں جیساکہ اس سے قبل چند روایات درج کی جاچکی ہیں لہذا شیعوں کی طرف ایسے عقائد منسوب کرنا ظلم ہے یایوں سمجھئے کہ دینی اور شرعی لحاظ سے ان کی امداد بالذات ہے نیز اخروی شفاعت امداد وسیلہ کی حیثیت سے ہے یا یہ کہ تشریعی امور میں ان کی مدد ذاتی ہے اور تکوینی امور میں ان کی مدد وسیلہ کی صورت میں ہے لہذا جو یہ کہے کہ علما ءاعلام حضر ت علی کی امداد کے منکر ہیں وہ جھوٹا ہے علما ایسے شخص کے بہتان و اتہام سے بری الذمہ ہیں اسی طرح جو یہ کہے کہ اگر شیعہ لوگ محمد و آل محمد کو خدا کا شریک مانتے ہیں وہ بھی کذاب و مفتری ہے چنانچہ ہمارا بیان اس کا شاہد بین ہے
حضرت علی کی امداد اور کلمہ یا علی مدد
2 min read