ایک خطبہ میں آپ ایک عبد کی صفت بیان کررہے ہیں جس کو خُدا نے اپنی نفسی اصلاح کی توفیق دی وہ شخص جواپنے نفس پر عدل کو ضروری قرار دے پس اسکا پہلا عدل یہ ہے کہ اپنے نفس سے خواہشات کو دور رکھے ھق کو بیان کرے اور خود اس پر عمل کرے خیرکی کسی غایت کو ترک نہ کر ے اور اس کی کسی جائے توقع سے چشم پوشی نہ کرے بس ایسا شخص ہی تاریکیوں میں چراغ دھند لکے میں مینار امور معضلہ کا فاتح اور طرق مشکلہ میں قائد ہو سکتاہے بولے تو سچ ورنہ خاموش رہنے میں بہتری سمجھے پس اس نے اللہ کے لئے اخلاص کیاتو اللہ نے ا س کواپنا خالص بنا لیا ایسے لوگ اللہ کے دین کی معدن اور زمین پر اس کی ایک مضبوط چٹان ہوا کرتے ہیں حضرت امام حسن علیہ السلام کو اپنے نفس کو اصلاح کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں بیٹا اپنے دل کو موعظہ کے ساتھ زندہ رکھو او زہد کے ساتھ اس کی خواہشات کو مارو اس کو یقین و حکمت کے ساتھ طاقت ور اور نورانی بناو ذکر موت سے اس کو مطیع کرو او ر اس کو موت سے یقین دہانی کرو دنیا کے حوادث اور زمانہ کے انقلابات سے اس کو بصیرت دو اخبار سلف اور ان کے آلام ومصائب سےاس کو آگاہ کروان کی تاریخ و آثار کامطالعہ کرو دیکھو انہوں نے کیا کیا کہاں سے آئے اوراب کہاں فروکش ہیں وہ دوستوں سے جد ا ہو کر مقام غربت میں اترے ہیں اور توبھی عنقریب ان جیسا ہو گا پس اپنےاس ٹھکانے کی اصلاح کروا ورآخرت کو دنیا کے بدلہ میں فروخت نہ کرو عدل ذاتی اور خلق نفسی کے متعلق کوئی نظریہ اس سے بڑھ کرنہیں ہو سکتا آپ نے نفس میں عدل کا پہلا زینہ نفسی خواہشات کوہی قرار دیا ہے کیونکہ جب تک نفسی خواہشات میزان عدل پوری نہ اتریں تو تحصیل کمال اورنیل سعادت کے لئے کوئی قدم اٹھایا ہی نہیں جا سکتا پھ انسان روپ انسانی میں حیوانی لذات اور درندگی صفات کا دلدادہ ہو کر رہ جائے گا لیکن یہ یاد رہے کہ جذبات میں انسان جس حد تک بڑھے ادنی حیوانوں کی سی شہوت رانیوں تک نہیں پہنچ سکتا اور انسان جس قدر ان خواہشات کا دلدادہ ہو گا ان جیسے حیوانوں کے مشابہ اور قریب تر ہو گا اور جس طرح انتہائی کوشش کے باوجود بھی انسان درندگی میں ایک خونخوار بھپڑئیے کی برابر ی نہیں کر سکتا اسی طرح جنسی تعلقات میں بے راہ روی میں کس قدر آگے بڑھے ایک معمولی گدھے کی سی لذت اندوزی کا مقابلہ نہیں کر پاتا بہرکیف حیوانی لذات و خواہشات و جذبات کو جس قدر بے لگام کیا جائے گا فلاح و صلاح سے دوری ہوتی جائے گی اوران قوتوں کا جوش تب ٹوٹ سکتاہے جب ان کی مخالفت میں محنت کوشش اور اچھی خاصی ریاضت کی جائے دیکھئے زمین اگرچہ بذات خودقابل کاشت اور زرخیز ہے لیکن اگر اس پر محنت نہ ہو تو بے ہود ہ نباتات اور خاردار جھاڑیاں پیدا کر کے وہ وحوش صحرا اور طیور ہوا کا مسکن اور درندگان خونخوار کا ایک خاطر خواہ پیشہ بن جاتی ہے اورجس قدر اس کی آباد کاری میں دیر کی جائے گی اسی قدر اس کی آبادی مشکل سے مشکل تر ہوتی جائے گی اور زیادہ سے زیادہ محنت کی طالب بنتی جائے گی اور اس کی سطح سے تمام جنگلات کو دور کر کے جب قلبہ رانی کے بعد اس کو کاشت کیا جائے گا تووہی زمین اشرف المخلوقات انسانو ں کے معاش کا ذریعہ اور ا ن کا مسکن بننے کا شرف حاصل کرے گی پس اسی طرح زمین نفس کواگر اپنی حالت پر چھوڑ دیا جائے تواگرچہ بذات خوداعمال صالحہ اور عقائد حقہ کے لئے نہایت زرخیز اور کارآمد ہے جس کا نتیجہ سعادات ابدیہ اورکمالات وآئمہ ہو سکتےہیں لیکن خبر گیری کے بغیر آوارگی کی صورت میں یہ بھی خواہشات و جذبات اور تعیش و توحش کی تربیت گاہ بن کر حیوانی عادات اطوار کا مسکن اوردرندگی صفات کا مظہر بن جاتی ہے اور جس قدر اس کو اپنے حال پر رہنے دیاجائے گا اس کی اصلاح اسی قدر مشکل سے مشکل تر ہوتی جائے گی ابتداءاس پر تھوڑی محنت کارآمد ہو سکے گی اور دیر کے بعد بہت زیادہ ریاضت درکار ہو گی عقل کی طاقت سے تما م خواہشات و جذبات اور شہوت و غضب وغیرہ کے نامناسب درخت اس سے کاٹنے پڑیں گے اور حرص و ہوس کے خلاف اس پر دانش و خرد کی قلبہ رانی کرنی ہوگی پھرآلات عدل و انصاف سے اس کو ہموار کرنا ہو گا اوراس ساری اصلاح کے بعد وہ حکمت و علم کی تخم ریزی کے قابل ہو گی پھرآسمان رحمت کاپانی اس کو فائدہ دے گا اورسعادت و نجابت و شرافت و دیانت و امانت وغیرہ اس زمین نفس کی خوشگوار پیدا وار ہو گی جو اس کی قمیت کو بہت زیادہ بڑھا کر قدسیوں کے لئے باعث رشک بنا دے گی ورنہ اس مرحلہ کے بغیر سعادت مشکل ہے اور جو مخالفت نفس پر موفق ہوا اس نے اپنے دامن میں سعادت کو جمع کر لیاور اس کے متعلق ارشاد خدا وندی ہے واما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھوی فان الجنتہ ھی الماوی
ترجمہ لیکن جو بھی اپنے
پروردگار کی عظمت کےسامنے خوفزدہ ہوگا اور نفس کو خواہشات نفسانیہ سے روکے گا تو
جنت اس کا ٹھکانہ ہو گا خدا وند کریم ہمیں اس مرحلہ میں کامیابی کی توفیق مرحمت
فرمائے نتیجہ یہی ہوا کہ انسان کا اپنی ذات سے عدل یہ ہے کہ خواہشات نفس کی مخالفت
کر کے اپنے مناسب کمال کی طرف اقدام کرے۔