التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

لوگوں کی تحصیل معرفت خالق اقسام

2 min read

جب فطرت کے تقاضوں نے عالم اکوان کے نت نئے تغیرات اوراس میں ظاہر ہونے والے حیرت انگیز مشاہدات کی بنا پر ان کے علل و اسباب کی جستجو کی طرف نظر و فکر کی تحریک کی تو لوگوں کی اس مقام پر تین قسمیں ہو گئیں ایک قسم ایسے عقل و بصیرت کے اندھے لوگوں کی ہے جو فطرت انسانیہ بلکہ شرف ذاتی کامنہ چڑاتے ہوئے تحقیق و تدقیق کے لئے نظرو فکر سے کا م لینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے و ہ اس زندگی فانی کے علاوہ کسی دوسری زندگانی جاو دانی سے قطعا غافل ہیں پس ان کا مطمح نظر صرف اس چار روزہ زندگی کی خوشحالی کے سوا اور کچھ نہیں وہ اس سے آگے کچھ نہ جانتے ہیں نہ جانناچاہتے ہیں گویا انہوں نے جہالت کے تاریک گڑھے میں قندیل عقل و فانوس فراست کو خاموش کرکے حیوانیت کی بہیمانہ زندگی پرآنکھیں بند کر لیں اور دین و مذہب کی جملہ قیود سےآزادی کو کامیاب زندگی تصورکر لیا دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جنہوں نے جہالت کی تنگ و تار وادیوں میں گم گشتہ رہنے کو روح انسانی اورناموس بشری کیلئے سم مہلک سمجھا پس افکار و اذہان کی پشت پرسوار ہو کر تلاش حقیقت میں وہ آگے بڑھے کافی دوڑ دھوپ اور محنت و کاوش کے بعد ایک مبداءتک پہنچے جس کو انہوں نے مبداءالمبادی کے نام سے پکارا اورتمام غایات کی غایت اقصی اس کو قرار دیا اوراس کے قائل ہوئے کہ وہ خود شعور و ادراک سے خالی ہے پھر اس کا نام طبیعت مادہ ہیولی دہر زمانہ وغیرہ وغیرہ ہر ایک نے اپنی اپنی پسند سے تجویز کر لیا تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جنہوں نے کہاکہ طبیعت و مادہ کے بعد تمام اشیا ءحتی کہ ماد ہ و طبیعت کامبدا ءبھی الگ الگ ذات ہے جو درحقیقت مبدا المادی ہے اوروہی سب سےاول ہے اوراس سے اول کوئی چیز نہیں ہے گویا علل و مبادی کی جستجو میں دوسرا اورتیسرا گروہ ایک حد تک شریک سفر رہے مادہ و طبیعت تک پہنچ کر دوسرے گروہ نے ہمت ہار دی اورتھک کربیٹھ گیا لیکن صاحبان ہمت آگے بڑھے اورانہوں نے مادہ و طبیعت کو منازل سیراورمراحل سفر میں سے ایک منزل و مرحلہ قرار دیا ورغایت و مقصوداس کے علاوہ اورذات کو سمجھا جو مبدا ءاول کہلانے کی مستحق ہے اوروہی اللہ ہے ان میں سے عقل کے اندھوں کا گروہ جو بحث و تمحیص اورتحقیق و تدقیق میں جانا عبث سمجھتے ہوئے تاریکی کی زندگی کو غنیمت سمجھتے ہیں ان سے بات کرنا فضول ہے البتہ دوسرے گروہ سے بات کرنا کسی حد تک مفید اوراچھے نتائج کا باعث بن سکتا ہے

ایک تبصرہ شائع کریں