التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

عرش اعظم و کرسی

4 min read

علمائے ہئیت نے جو بیان کیا ہےاس کے مطابق اس کو فلک اعظم یا فلک الافلاک کانام دیا جاتاہے و ہ تو آسمانوں کے قائل ہیں سات پہلے پھر آٹھواں فلک البروج جسے شرعی اصطلاح میں کرسی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور نواں عرش ہے علم ہئیت والوں کے نزدیک تما م ستارگان اور بروج آسمان ہشتم یعنی فلک البروج میں ہیں بعض احادیث بھی اس ترتیب کو ثابت کرتی ہیں مثلا یہ کہ آسمانوں اور زمینوں کی حیثیت کرسی کے مقابلہ میں اس طرح ہے جیسے ایک انگوٹھی کا چھلا ایک وسیع جنگل میں اور کرسی کے مقابلہ میں بعینہیہ یہی ہے ابھی ابھی ملائکہ کی کثرت کے بیان میں بھی عرش و کرسی کی عظمت جرمی بیان ہو چکی ہے اس لحاظ سے عرش کرسی پر حاوی ہے وسع کرسیہ السموت والارض کہ اس کی کرسی آسمانوں اور زمین سے وسیع ہے پس خدا وند کریم کا عرش پر ہونا اس طرح نہیں جس طرح بادشاہان دنیا اپنے تخت پر جلوہ گرہوا کرتے ہیں کیونکہ ہم ثابت کرچکے ہیں کہ خداجسم و جسمانیا ت سے پاک و مبرا ہے اور اس سے کوئی مقام خالی نہیں ہے پس قرآن مجید میں جہاں علی العرش استوی موجود ہے کہ رحمن عرش پر جلوہ گر ہے اس استواء اور جلوہ گری کا معنی تسلط کامل ہے نہ کہ بیٹھنا جو جسمانیات کی شان سے ہے اور عربی زبان میں استواء استیلا کے معنی میں استعمال ہوتاہے جس کامعنی تسلط و تصرف کامل ہے لیکن آئمہ معصومین ؑ کے کلام میں عرش کی دو تاویلیں اور بھی منقول ہیں عرش کے متعلق ہمار  ا عقیدہ یہ ہےکہ وہ جمیع مخلوق کے مجموعہ کانام ہے اور دوسری تاویل اس کی یہ ہے کہ اس سے مراد علم ہے اور حضرت امام صادق علیہ السلام سے دریافت کیا گیا الرحمن علی العرش استوی کا مطلب کیا ہے توآپ نے فرمایا مطلب یہ ہے کہ اپنی جملہ مخلوق سے برابر برابر نسبت رکھتا ہے کوئی شئیی دوسری چیز کی بہ نسبت اس سے قریب تر نہیں ہے پہلا معنی یعنی اگر جمیع خلق کا مجموعہ لیا جائے تو اس کے عرش کے حاملین آٹھ فرشتے ہیں ان میں سے ہر ایک کی آٹھ آٹھ آنکھیں ہیں کہ ہر آنکھ پوری دنیا پر چھا سکتی ہے تو ان میں سے ایک آدمی کی شکل کاہے اور وہ بنی آدم کے لئے خدا سے رزق طلب کرتا ہے دوسرا بیل کی شکل میں ہے جو حیوانات کے لئے خدا سے رزق طلب کرتاہے تیسرا شیر کی شکل کا ہے جو درندوں کے لئے خدا سے رزق مانگتا ہےاور چوتھا مرغ کی شکل میں ہے جو پرندون کے لئے رزق طلب کرتا ہے پس دنیا میں یہ چار ہیں اور آخرت میں آٹھ ہوں گے دوسرا معنی یعنی اگر اس کی تاویل علم سے کی جائے تو اولین میں سے اس کے حاملین چارہیں حضرت نوحؑ حضرت ابراہیم ؑ حضرت موسیؑ اور حضر ت عیسیؑ اور آخرین میں سے اس کے حاملین چار ہیں حضرت محمد مصطفی ﷺ حضرت علی ؑ حضرت امام حسنؑ اور حضرت امام حسین ؑ اور عرش کے بارے میں آئمہ طاہرین ؑ سے یہ مطلب احادیث صحیحہ سے ثابت ہے

پہلے معنی کے لحاظ سے حاملین عرش سےمراد نظام عالم تکوین کےتدبیر کرنے والے ملائکہ ہیں اور چونکہ ذی روح مخلوق کے نظام سے ہی باقی نظام وابستہ ہے لہذا ان کی چا ر قسموں کےلئے ایک ایک ملک مقرر ہے اور یہ کہ ملک کی شکل آدمی یا بیل یا شیر یا مرغ کی ہے اس بنا پرکہ ملائکہ ہرشکل میں آسکتے ہیں یا یہ کہ افہام انسانی سے قریب کرنے کے لئے مطلب کی ادائیگی کوتمیثل کےرنگ میں پیش کیاگیا ہے اور علم کی صورت میں سابق میں سے چارنبیو ں کا اختیار ا س لحاظ سے ہے کہ وہ صاحبان شریعت تھے اور باقی نبی انہی کی شریعت کے تابع تھے لہذا انہی کو مرکزیت حاصل تھی اور آخرین میں سے اصحاب کسا کو خصوصیت حاصل ہے وہ مخفی نہیں اورباقی آئمہ ا ن ہی کے نقش قد م پر ہی چلنے والے ہیں گویا ہمارے بیان میں عرش کے تین معانی ہوگئے پہلے معنی کے لحاظ سے فلک الافلاک یا عرش اعظم اور استواء سے مراد تسلط و تصرف کامل ہے پس اللہ نظام تکوینی میں اس تصرف کامل کا واحد مالک ہے اور دوسرا معنی اس نظام تکوینی کی تعبیر ہے جس کے مدبر چار فرشتے مقرر ہیں اور نظام تکوینی نظام تشریعی کا مقدمہ ہے اور تیسرا معنی  علم اس نظام تشریعی کی تعبیر ہے جس کے ناظم اولین میں سے چار اولو العزم پیغمبر تھے اورآخرین میں سے اصحاب کسا ہیں اور اللہ کا عرش پر مسلط ہونے کا یہ مطلب ہوگا کہ وہ نظام کائنات کی دونو تدبیروں کا مختاراعلی  اور سربراہ حقیقی ہے خوا ہ تدبیر تکوینی ہو یاتدبیر تشریعی پس الرحمن علی العرش استوی اس کے تصرف کامل اور اختیار کلی کا اعلان ہے اور شرعی اصطلاحات میں عرش و کرسی دونو سے ایک ہی معنی مراد لیا جاتاہے واللہ اعلم بحقائق الامور۔

ایک تبصرہ شائع کریں