اگر نظر غائر سے انسانی وجود کو دیکھا جائے تو اس میں عالم اکبر کا تمام علوی
و سفلی نظام موجود ہے سرعالم علوی کی مثال
اورباقی جسم عالم سفلی کانمونہ ہے سر میں
ہڈیاں پردے اور جھلیاں طبقات سمادیہ کی مثل ہیں اس میں دماغ عرش کی مثال ہے اور دیگر قوائے باطنہ عاقلہ
متخیلہ حافظہ مفکرہ ورمدبرہ وٖغیرہ ملائکہ کی مانند ہیں بے حساب بال ستاروں کی طرح
دو آنکھیں شمس و قمر دونو کا ن قطنین آنسو بارش اور ہنسنا بجلی کی چمک کی طرح ہے
وعلی ہذا القیاس باقی جسم میں چمڑا زمین بال نباتات اور خون کی نالیاں دریاوں اورنہروں
کی مانند ہڈیاں پہاڑوں کی طرح شکم سمندر کی مثل اور دل کعبہ اللہ کی مانند ہے وعلی
ہذا لقیاس اس کی تکوین و ترتیب میں دو جز علوی آگ و ہوا ور دو جز سفلی مٹی اورپانی ہیں اس میں چار کیفیتیں
ہیں خشکی تری گرمی اور سردی جو انہی اجزا کا لازمہ ہیں جوا س میں موجود ہیں نیز
چار اغلاط دم صفرا بلغم اور سودا بھی انہی اجزا کی جدا گانہ کیفیات کی کی بنا پر
اس کو لازم ہیں اور عالم اکبر کے اندر
کوئی شئیی ایسی نہیں جس کے خواص و اثرات انسان کے اندر موجود نہ ہو ں پس چونکہ متضاد اجزا اس کے خمیر میں داخل میں اور
متضاد کیفیتیں اور متضاد امزجہ اس میں کار فرما ہیں لہذا طبعی و فطری طور پر
کائنات عالم میں ہونے والے متضاد افعال کا جسم انسانی طورپر مظہر ہے پس غصہ حوصلہ
غضب رحم شہوت و خواہش ضبط و صبر بیماری تندرستی خوبصورتی بد صورتی جذبات تدبر تفکر
شجاعت و سخاوت بزدلی و بخل گرم مزاجی تلخی جوش سو چ سمجھ ورندگی ظلم کرم بے حیائی شرم محبت نفرت تکبر تواضع سچ جھوٹ
ضد تسلم اطاعت نافرمانی ذکاوت غبادت طہارت نجاست امانت خیانت صیانت نجابت مکر فریب دھوکا حسد بغض کینہ نخوت غرور جلد
بازی عیاری ہوشیاری غیبت سطوت عیاشی طاقت کمزوری مروت سعادت شقاوت برتری خودداری
ریاکاری شماتت ضرررسانی احسان عدل و انصاف اور حرکت و سکون اور دفع وغیرہ بے حد و
حساب عادات و اطوار و خواص و اثرات ہیں جن کا ذات انسانی سے ظہور ہوتا ہے