شیخ صدو ق قدس سر ہ نے عقائد میں انبیا کی فضیلت ملائکہ پر مذہب شیعہ کا اعتقاد بتایا ہے اور اسی پر ہمارا ایمان ہے صدوق نے متعدد دلیلیں ذکر کی ہیں جن کا مضمون ہم اپنے انداز سے یہاں بیان کر تے ہیں
o
ملائکہ خواہشات و شہوات و آلائشات
جسمانیہ سے پاک و صاف ہیں اور خلقی طورپر
معصوم ہیں نسیم عرش پر ان کی زندگی کا دارومدار ہے اور تسبیح پرور دگار ان کی غذا
ہے وہ روحانی مخلوق ہے نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں نہ دکھ نہ بیماری نہ جوانی نہ
بڑھاپا پس اللہ کی اطاعت ان کا شیوہ ہے
اور مخلوقات خدا وندی کی وہ حفاظت کرتےہیں گویا ان کا اگروہ ایک ایک صفت مخلوق کے
لئے محافظ مقرر ہے یعنی ان میں پروردگار کی نافرمانی کا ارادہ ہی نہیں بلکہ یفعلون
مایومرون کے مصداق ہیں جو حکم ہو تا ہے بجا لاتے ہیں بخلاف اس کے انبیا طاہرین
علہیم السلام میں تمام جذبات خواہشاتی نفسیاتی شہواتی موجود ہیں اور روحانیت کا
ملکہ بھی ہے پس یہ اپنے اختیارو ارادہ سے مادی پہلو کو ترک کر کے روحانی پہلو کی
طرف آتے ہیں اور جذبات کی قربانی کر کے معراج کمال کی طرف اقدام کرتےہیں لہذا ان
کی عبادت علم شرف اور کمال کی قدرو منزلت ملائکہ سے افضل و اتم و اہم ہے بنابریں و
ہ ملائکہ سے افضل ہیں۔
o
جس وقت خدا وند علام نےملائکہ کو
حضرت آدم کی خلافت ارضیہ کی اطلاع دی تو ملائکہ نے بارگاہ ربوبیت میں اپنی تسبیح
و تقدیس کے سہارے پر گذارش کی تھی کہ ایسے شخص کی کیوں خلیفہ بناتا ہے جس سے زمین
میں فساد و خونریزی ہو گی گویا دبی زبان میں اپنی خواہش کا اظہار تھا پس اس سے
معلوم ہوتاہے کہ نبوت کا مرتبہ ان کے ہاں ایک بلند و مرتفع درجہ تھا ورنہ پست درجہ
کی خواہش کون کرتاہے اسی وجہ سے تو تقدیس و تسبیح گذاری کی سند کو اپنی درخواست میں
ساتھ ضم کر دیا تھا لیکن بالآخر ٹھکرادی گئی او رانہیں اس مقام کےلئے ناموزوں قرار دیا گیا اور علم کو خلافت کا
دارومدار سمجھا گیا اور اس سے یہ بھی
معلوم ہوا کہ تسبیح و تقدیس سے علم کا
درجہ بلند تر ہے اور اسی بنا پروارد ہے کہ عالم کا ایک گھنٹہ کا علم میں تفکر ستر
سال کی عبادت سے افضل ہے یا عالم کے پا س ایک گھنٹہ بیٹھنا شہید کے جنازہ میں شرکت
سے افضل ہے یہ واقعہ صاف ظاہر کرتاہے کہ خالی تقدس و تسبیح جو علم و معرفت سے الگ
ہو اس سے خالی علم جو تقدس و تسبیح سے الگ ہو افضل ہے
o
حضر ت آدم کی پیدائش کے بعد تمام
ملائکہ کو اس کےسامنے سر بسجود ہونے کا حکم دیایہ بھی حضرت آدم کی فرشتوں پر
فضیلت کی دلیل ہے کیونکہ مفضول کے سامنے افضل کو جھکانا شان توحید کے شایان نہیں
اور فرشتوں نے سر بسجود ہونے کا حکم دیا یہ بھی حضرت آدم کی فرشتو پر افضلیت کی
دلیل ہے کیونکہ مفضول کے سامنے افضل کو جھکانا شان توحید کے شایان نہیں اور فرشتوں
نے سربسجود ہو کر ان کی فضیلت کا اقرار کر لیا نیز فرشتوں کا یہ سجدہ اللہ کے لئے
تھا اور آدم کا اکرام و اعظام ملحوظ تھا
کیونکہ ان کی صلب میں محمد وآل محمد کے انوار تھے
o
جنا ب رسالت مآب نے فرمایا تھا
میں جبرئیل میکائیل اسرافیل اور جمیع ملائکہ سے افضل ہوں اور میں تما م مخلوق سے
افضل ہوں اور آدم کی جملہ اولاد کا سردار ہو ں اگرچہ اس روایت میں حضور نے اپنی
ہی فضیلت بیان فرمائی لیکن معیار کے لحاظ سے تمام انبیا کی ملائکہ سے فضیلت ثابت
ہو گئی
o
ملائکہ اور حضرت آدم کے مقابلہ
میں جب ملائکہ جواب نہ دے سکے اور علمی میدان میں اپنی ہار تسلیم کر چکے تو خدا نے
آدم کو فرمایا انبئھم اور نبوت اسی مادہ سے ہی ہے یعنی تو ان کا نبی بن اور ان کی
خبر دے پس حضرت آدم نے ان کا نبی بن کر ان کو وہ مطالب سمجھائے جن سے و ہ بے خبر
تھے پس انہوں نے اپنی درخواست واپس لے لی اور حضرت آدم کےسامنے جھک گئے
o
ملائکہ میں ترقی و کمال کا ملکہ
نہیں بلکہ وہ جو کچھ ہیں تو انہوں نے اسی قدر ہی رہنا ہے نہ مقام عبادت میں اور نہ
مقام معرفت میں وہ آگے بڑھ سکتے ہین بخلاف اس کے انبیا چونکہ ملکہ ترقی و کمال رکھتے
ہیں لہذا یہ ان سے افضل ہیں ان اولہ مذکورہ میں سے صدوق نے بعض کو صراحتا
ذکرفرمایا ہے اور بعض کی طرف صرف اشارہ سے کام لیا ہے جن کو ہم نے وضاحت کر دی ہے
اور ملائکہ پر انبیا کی فضیلت ثابت کرنے کے لئے اسی قدر ہی کافی ہے
o
علاوہ ازیں جب ملائکہ تمام
مخلوقات کی حفاظت کے لئے الگ الگ گروہ کی صورت میں متعین ہیں اور انسان تمام باقی
مخلوقات میں سے مقصود اعلی و اشرف کی حیثیت رکھتے ہیں اور نبی انہی میں سے ایک
معصوم گروہ کا نام ہے تو ان کی افضلیت میں کیا شک رہ جاتا ہے
o
نیز ملائکہ کی عصمت تکوینی و
اضطراری ہے اور انبیا کی عصمت تشریعی و اختیاری ہے وبینھما بون بعید
o
ملائکہ نظام تکوینی کے محافظ ہیں
اور انبیا نظام تشریعی کے محافظ و مبلغ ہیں او ر سابق میں بیان ہو چکا ہے کہ نظام
تشریعی نظام تکوینی سے افضل و اشرف ہے معتبرلہ فرقہ کے نزدیک چونکہ فرشتے انبیا
سےافضل ہیں لہذا وہ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ شیطان نے حضرت آدم کے دل میں وسوسہ
ڈالتے ہوئے جب درخت ممنوع کے پھل کھانے پر آمادہ کیا تو کہا تھا الا ان تکونا ملکین
اوتکونا من الخالدین یعنی یہ کہ اس درخت کا پھل کھانے سے تم ملک بن جاو گے یاہمیشہ
کی زندگی یا و گے تو اگرملائکہ انبیا سے افضل نہ ہوتے تو ابلیس یہ وسوسہ کیوں
ڈالتا اور حضر ت آدم ا س کو کیوں قبول کرتے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے پہلے
حضرت آدم اپنے پروردگار کا خطاب بھی سن چکے تھے لا تقربا ھذا الشجرتہ فتکونا من
الظمین اس درخت کے قریب نہ جاو ورنہ خسارہ پاو گے اور معمولی سے معمولی دماغ کا
انسان بھی سمجھ سکتاہے کہ خسارہ کا معنی ترقی مدارج اور بلند ی مراتب نہیں ہوتا
بلکہ تنزل ہوا کرتاہے گویا ابلیس نے تنزلی اورخسارہ کے دوپہلو حضرت آدم کو بتائے
تھے کہ بصورت تناول شجرہ تمہیں یا تو ملک
بنا دیا جائے گا یا اسی جگہ کی رہائش تمہارے لئےدائمی قرار دی جائے گی اور جس عہدہ
خلافت کی تمہیں پیش کش کی گئی ہے اس سے بر طرفی کی صورتیں ہی ہیں لہذا ابلیس کا
وسوسہ بھی انبیا کی ملائکہ پر افضیلت کی دلیلیوں میں سے ایک دلیل ہے اور ہم نے
تفسیر کی جلد نمبر 6 میں اس کی وضاحت کی ہے
والحمد للہ ر ب العلمین