عقل جب افعال کاجائزہ لے خواہ وہ افعال کسی سےصدور پذیر ہوں او ر خارجی جہات و اعتبارات سے قطع نظر کر لی جائے تاہم کوئی فعل ان حالتوں سے خالی نہ ہو گا تو عقل کے ملائم ہو گا جس طرح احسان کرنا تو وہ عقل کے نزدیک حسن ہو گا اور یا وہ عقل کے ملائم نہیں بلکہ اس سے منافرت رکھتا ہوگا جیسے ظلم و سرکشی پس اس قسم کا فعل عقل کے نزدیک قبیح ہو گا اور یا نہ ملائم نہ منافر بلکہ اس کے دونوں پہلو یکساں ہو ں گے اور خارجی اعتبارات سے اس کا فیصلہ کیاجائے گا پس اس فعل نہ قابل مدح اور نہ قابل مذمت ہو گا اور نفس کی جملہ قوتوں میں سے ملائمت یا منافرت صرف عقل کے لئے نہیں بلکہ نفس کی تمام قوتیں اپنے اپنے مقام پر اپنے اور اکات میں ملائمت یا منافرت رکھتی ہیں جیسے کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ آنکھ کو بعض رنگ پسند اوربعض نا پسندی کا ملکہ امتیاز ختم ہو جائے وہ قوت بے کار سمجھتی جاتی ہے مثلا ناک اگر خوشبو اور بدبو میں فرق نہ کر سکے تواس کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہوتاہے اور تمام قوائے بدنیہ اور حواس ظاہر ہ کا یہی حال ہے پس کسی کا احسان چونکہ دلالت خیر کرتا ہے لہذا یہ عقل کو محبوب ہے پس وہ حسن ہے اور ظلم اسی بنا پر اسے ناپسند ہے پس وہ قبیح ہے قوت باصرہ کی محبوب رنگ سے قوت شامہ کی خوشبو سے قوت سامعہ کی ملائم آواز سے ایک قسم کی سخنیت موجود ہے وعلی ہذا لقیاس جس قوت کو کسی شئی سے سخنیت حاصل ہوجائے وہی اس کی ملا ئم و محبوب ہوتی ہے پس عقل اور عدل بلکہ ہر کمال کے درمیان چونکہ سختی طور پر مناسبت و باہمی قرب ہے لہذا عقل نیکیوں کی کان برکتوں کی بازگشت او ر سعادتوں کا سرچشمہ ہے اور عقل اللہ کی محبوب ترین مخلوق ہے عقل ہی عدل کی بنیاد کو اٹھانے والا او رقسط کے میزان کو نصب کرنےوالاہے پس عقل و عدل دو ایسے ساتھ ہیں جو کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے بلکہ عقل اصل اور عدل اس کی فرع ہے عقل راہ چلنے والا اور عدل راہ ہے عقل روشنی او ر عدل اس کی مناسب فضا ہے عقل معنی و مطلب اور عدل اس کی زبان وتر جمان ہے یا یوں سمجھئے کہ عقل دلیل و برہان ہے اور عدل اس کی قانون ہے
اشعری نظریہ کی غلطی
2 min read