التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

معجزہ کی ضرورت

3 min read

چونکہ مادہ و طبیعت کی پرستار ذہنیتیں ہمیشہ پیغام توحید سے بر سرپیکار رہی ہیں وہ ہر شئیی کو علل و اسباب ظاہریہ کی مخلوق سمجھتی ہیں پس واعیان توحید کے لئے ضروری تھا کہ ان آفت زدہ اذہان کو خالق کائنات کی طرف اس طریقہ سے دعوت دیں کہ وہ مادہ طبیعت کی قیدوبند سے آزاد ہو کر ذات واجب الوجود کی معرفت کادرس حاصل کر سکیں جو نہ خلق میں مادہ کامحتاج ہے اور نہ نظام اکمل کا ئنات میں طبیعت کامرہون احسان ہے

اور بہت ممکن ہے کہ مادہ پرستوں کی جانب سے انبیا پر یہ سوال کیاجاتاہو کہ مادہ کے بغیر کس طرح کوئی شئیی زیور وجود سے آراستہ ہو سکتی ہے یا طبیعت کےسوا کس طرح نظام کائنات برقرار رہ سکتاہے تو ان کے لئے صرف لفظوں میں جواب دینا کافی نہ تھا بلکہ عملی طور پرواضح کرنے کیلئے انبیا کو ایسی قوت کا عطا کرنا ضروری تھا جس کے استعمال سے ہردور کا مہذب گروہ اور ترقی یافتہ طبقہ وجود ذات اقدس خداوندی کی دلیلوں کو قبول کرنے میں پس و پیش نہ کر سکے اسی بنا ءپر جس دور کے ترقی یافتہ لوگوں کے نزدیک کوئی فعل علل و اسباب ظاہرہ کے لحاظ سے عروج و کمال کی انتہائی منزل پر پہنچا ہوا ہوتاتھا اور اس دور کے مفکرین و علوم جدیدہ کے مالک اس سے اوپر قدم رکھنا مافوق البشر طاقت کاکام سمجھتے تھے تو اس دور میں اللہ نے جو نبی بھیجا اسی مناسبت سے وہ قوت لے کر آیا جس نے اس دور کے ماہرین علوم کی گردنیں جھکادیں اور انہیں تسلیم کرنا پڑا کہ ہماری افکار وانظار سے بلند بالا ایک ایسی طاقت موجود ہے جو خلق میں مادہ سے اور نظام مین طبییت سے بے نیاز ہے چنانچہ لوہے کی صنعت عامہ کے  پیش نظر حضرت داود کو ایسا کمال دیا کہ اس دور کے ماہرین نے گھٹنے ٹیک دیے حضرت موسی کے حیرت انگیز انقلاب نوعی نے ان کے حاصلے توڑدیے فن طب کے کمال پر حضرت عیسی نے خط نسخ پھر دیا پس گویا انبیائے کرام کے معجزات اسی طرح تبلیغ کے سلسلہ کی اہم کڑی تھیں نیز یہ بات بھی تاریخی مسلمہ ہے کہ دعوت توحید کو منوانے کے لیے جہاں معجزہ کی ضرورت اہم ہوتی ہے وہاں قوت بیان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اپنے مطلوب کے منوانے کے لیے سب سے بڑا طریقہ صداقت و دیانت کے اصولوں پر مبنی زور وار بیان ہے لہذا شکوک و شبہات کا حل صرف دلائل وبراہیں کے پاس ہوتا ہے پس نبی کے لئے اس ملکہ کا ہونا ضروری ہے اور ضدی مزاج طبقہ دلائل وبراہین سے آنکھیں بند کر لے تو ان کو معجزہ دکھا کر اتمام حجت کی جاتی ہے اسی لیے قرآن مجید میں باربار تفکر وتدبر کی دعوت دی گئی ہے  اور معجزہ کو ثانوی حیثیت پر رکھا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہود چونکہ اس معیار کو سمجھتے تھے لہذا انہوں نے حضور کی صداقت کا معیار دلائل و براہین کو قرار دیا تھا لیکن جب مشرکین مکہ کی پہنچ اعجاز نمائی ےک تھی لہذا وہ معجزہ طلب کو کرتے تھے اور یہی وجہ کہ دلیل حتمی سے مطمعین ہوجاتا ہے اگر فہم مستقیم و عقل سلیم رکھتا ہو لیکن معجزہ کے طالب کو ذہنی سکون حاصل نہیں ہوتا وہ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا معجزہ طلب کرتا ہی رہتا ہے چنانچہ مشرقین کا یہی دستور تھا آپ فلاں کان کر دکھائیں وہ ہو گیا تو اور مطالبہ کر دیا  مثلا چاند کو ٹکڑا کر دکھائیں وہ جب ہو گیا تو اچھا فلاں فلاں ہمارے بزرگوں کو زندہ کریں ان کا سلسلہ سوالات ختم ہی نہیں ہوتا تھا اور اسی بنا پر قرآن مجید میں ان کو بہت زیادہ  سرزنش کی گئی ہے کہ سن کو معجزہ دکھانے سے ان کی تسلی نہیں ہو گی ان کو تدبر و تفکر کی دعوت دو

ایک تبصرہ شائع کریں