معجزہ کی حقیقت سمجھنے سے پہلے ایک مقدمہ کی وضاحت ضرور ی ہے تاکہ مطلب کے سمجھنے میں آسانی ہواو ر وہ یہ کہ محال کی چار قسمیں ہیں محال ذاتی محال عقلی محال عادی اور محال شرعی
·
محال ذاتی وہ ہے جس کی ذات عدم کی
مقتضی ہو جیسے شریک الباری
·
محال عقلی وہ ہے جس کا وجود عدم کو مستلزم ہوجیسے دور وتسلسل وغیرہ
·
محال عادی جس کا وقوع عادت جاریہ کے خلاف ہومثلا
موجودات عالم میں سے کسی شئیی کا بغیرسبب کے واقع ہو جانا
·
محال شرعی کسی شرعی حکم کو شارع کے
تصرف کے بغیر اپنی نوعیت کا تبدیل کر لینا جیسے آب مضاف کا مطہر ہونا یاآب مطلق جاری یا کرکانجس ہوناوغیرہ
پس محال ذاتی اور محال
عقلی کا وقوع پذیر ہونامقدوریت کے دائرے سے باہرہے اور محال شرعی شارع کے تصرف سے
ممکن ہوسکتا ہے جسے نسخ کہا جاتاہے پس معجز ہ کا تعلق صرف محال عادی سے ہی ہے اسی
لئے اس کو خارق عادت کے لفظ سے تعبیر کیا جاتاہے اور ہم نے مقدمہ تفسیر انوارالنجف
میں اس کی دس قسمیں ذکر کی ہیں لہذا تفصیل کے لئے وہاں
رجوع فرمائیں پس موجودات عالم میں سے کسی شئیی کا ظاہری اسباب وآلات کے بغیر غیر
متوقع صورت میں کسی نبی یا امام کی دعا یا برکت سے منصہ شہود پرظاہر ہونا ہی معجزہ
کہلاتاہے اب یہ سمجھنا یا سمجھانے کی کوشش کرنا کہ معجزہ جس طرح ظاہر ی طور
پراسباب و آلات کے بغیر ظاہر ہوا ہے آیا واقعا
ہی علل و اسباب سے بے نیاز ہے یا واقع میں وہ اپنے مخصوص اسباب رکھتا ہے جن
کا ہمیں علم نہیں ؟ تو میر ے خیال میں ایک ٹیڑھا سا سوال ہے اور اس میں پڑنا اور
ایسے جھیلوں میں الجھنا یقینا ہمارے لئے نتیجہ خیز نہ ہو گا کیونکہ ہماری محدود
بشری صلاحیتیں پڑنا اور ایسے جھمیلوں میں الجھنا یقینا ہمارے لئے نتیجہ خیز نہ ہو
گا کیونکہ ہماری محدود بشری صلاحیتیں مادراءالبشریت امور کاادراک نہیں کرسکتیں لہذا
ان کے متعلق کوئی ٹھوس نظریہ قائم کرنا بہت مشکل ہے لیکن قادر مطلق خدا چونکہ اپنے
افعال میں آلات و اسباب کا محتاج نہیں اور نہ مادہ و طبعیت کا حاجتمند ہے توجس
طرح اس لمبے چوڑے عالمی وجود کو ارادہ کن سے منصہ شہود و وجود پرلانے کی قدرت نامہ
رکھتا ہے اس قسم کے جزوی امور کےلئے مادہ و طبیعت کی حرکات مخصوصہ اسی ذات کی ہی
قدرت کا ادنی سا کرشمہ ہے لہذا اس مقام پر تردو کی کوئی ضرورت نہیں کہ معجزہ خارق
عادت امور کے صادر ہونے کا نام ہے نہ ظاہر اس کی کوئی علت ہے اور نہ واقعا و ہ علت
کا مرہون منت ہے اور یہی اعتقاد درست ہے اگر مادہ و طبیعت کے پرستار اور علل و
اسباب کی موجودہ روش کے قیدی اذہان مطمئن نہ ہوں تو انہیں اس قدر جملہ کہہ کر
خاموشی کو اختیار کر لوں گا کہ وہ مادہ یاطبیعت جو علل و اسباب کی دنیا میں علتہ
العلل اور مبدا ءالمبادی کی حیثیت رکھتا ہے کیا وہ حادث ہے یا قدیم اگر قدیم کہیں
تواس کے روزمرہ کےتغیرات اور روز افزوں تطورا ت اس نظریہ کو پیپنے کی اجازت نہیں
دیں گے پس حادث ہی ماننا پڑے گا تو پھر کیا وہ اپناموجد خود ہے یاکسی قادر مطلق کی
ایجاد کامحتاج ہے پس ہم کہیں گے کہ جس خالق نے اس علتہ العلل اورمبدا ءالمبادی کو
بغیر مبداءعلت کے پیدا کر دیا ہے وہ اس کے باقی شوون و تصرفات میں بھی مادہ و علت
کا محتاج نہیں ہے وہ جب چاہے جس طرح چاہے ایجاد مخلوق پرکلی طور پر قادر ہے اس کی
قدرت کی کوئی حد نہیں اس نے تمام کائنات کو علل و اسباب کا ایک دستور ی رنگ د ے
رہاہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اب مجبور ہو گیا ہے بلکہ یمحوااللہ ما یشاءویثبت
کا مصداق ہے پس اسی طرح معجزہ بھی اس کی قدرت کا کرشمہ ہے جو بغیر ظاہری و واقعی
اسباب کےمنصہ شہود پر ظاہر ہوتاہے۔